استعماری لغت کا انہدام
(آخری حصہ: لغت بقا ہے، بندوق ضمانت)
تحریر: برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
استعمار ہمیشہ بندوق سے شروع نہیں کرتا، وہ سب سے پہلے خوابوں پر قبضہ کرتا ہے۔ وہ خواب جو لفظوں سے بنتے ہیں، جو معنی سے سانس لیتے ہیں۔ لغت، وہ خفیہ بارود ہے، جو بغیر دھماکے کے بستیوں کو فتح کر لیتا ہے۔ اور آج بلوچ مزاحمت کی سب سے بڑی لڑائی ان خفیہ بارود خانوں کو ڈھونڈ کر بے اثر کرنے کی ہے، جنہیں پنجابی ریاست نے ترقی، استحکام، اور وحدت جیسے خوشنما نام دے کر ہماری روح میں چھپا دیا تھا۔
خاموش الفاظ کے شور میں، جب طاقت معانی کو قتل کرتی ہے، تب بغاوت کا پہلا گولی الفاظ کے سینے پر چلائی جاتی ہے۔ زمین کی فتح ہمیشہ دوسری لڑائی ہے؛ پہلی لڑائی زبان پر قبضے کی ہوتی ہے۔ فاشسٹ پنجابی ریاست نے بھی یہی راستہ اپنایا ہے۔ لیکن بلوچ قوم نے اپنی لغت کی قبر پر ماتم کرنے کے بجائے، لغت کو زندہ رکھنے کے لیے بندوق اٹھائی ہے۔ کیونکہ بندوق محض جسموں کی حفاظت کا وسیلہ نہیں، یہ معنی کا آخری کاتب ہے۔
پاکستانی آرمی چیف کی حالیہ تقریر، جس میں انہوں نے بلوچ مزاحمت کو “پندرہ سو شرپسندوں کی بے اثر سازش” قرار دیا، دراصل لغت کی جنگ میں ان کی شکست کا غیر شعوری اعتراف تھا۔ جب کوئی قوت اپنے دشمن کو حقیر عددوں میں قید کرنے کی کوشش کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوت حقیقت کے سامنے لرز رہی ہے۔ “پندرہ سو”، “دس نسلیں”، “ریاستی رٹ” یہ سب الفاظ نہیں، لغت کی شکست خوردہ چیخیں ہیں۔
ژاک دریدہ کہتا ہے کہ ہر طاقتور بیان کے نیچے ایک ناتواں خوف دفن ہوتا ہے۔ پاکستانی آرمی چیف کی ہر سطر میں یہی دفن شدہ خوف ہانپتا نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں “بلوچ آزادی حاصل نہیں کر سکتے” گویا آزادی کوئی سرٹیفیکیٹ ہے جو ریاست اپنے دفتر سے جاری کرتی ہے۔ لیکن بلوچ قوم جانتی ہے کہ آزادی دستاویزات سے نہیں، لغت سے جنم لیتی ہے۔ اور جب لغت آزاد ہو جائے، تو قبضہ محض ایک وقتی دھندلا پن ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ استعمار کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ وہ شکست کو بھی لغت میں چھپا کر فتح بنا دیتا ہے۔ آج جب ریاست کہتی ہے کہ شرپسندوں کو مٹادیں گے، تو درحقیقت وہ اپنی لغت کے ملبے پر آخری رقص کر رہی ہے۔ کیونکہ ہر وہ ریاست جو اپنے الفاظ کے لیے گولی کا سہارا لیتی ہے، دراصل لغت کی جنگ ہار چکی ہوتی ہے۔
اس مرحلے پر معنی کی جنگ بندوق سے جدا نہیں رہتی۔ بندوق اب محض زمین کی حفاظت نہیں کر رہی؛ بندوق اب ان الفاظ کی حفاظت کر رہی ہے جو ریاست روزانہ مسخ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بندوق ہر اُس لغت کا دفاع کر رہی ہے، جس میں بلوچ عورت، بلوچ بچہ، بلوچ شہید سب اپنی اصلیت میں زندہ ہیں۔ اسی لیے مزاحمت جب بندوق اٹھاتی ہے، تو دراصل وہ لغت کی سانس بچاتی ہے۔ یہ صرف زمین کو آزاد کرانے کا عمل نہیں، بلکہ معانی کی بازیافت کا اعلان ہے۔ ہر گولی جو جبر کے مقابلے میں چلتی ہے، درحقیقت وہ لغت کی دوبارہ تحریر کا پہلا حرف بن جاتا ہے۔
جیل ڈیلوز اور گٹاری کا تصورِ “رائزوما” بتاتا ہے کہ استعمار ہمیشہ طاقت میں مرکزیت چاہتا ہے لیکن حقیقی مزاحمت جڑوں کی طرح مرکزیت کو توڑ کر ہر طرف پھیلتی ہے۔ بلوچ مزاحمت اب کوئی مرکزیت رکھنے والی تحریک نہیں؛ یہ ہزاروں ان کہی کہانیوں، بندوقوں، لوریاں لکھتی عورتوں، ٹارچر سیل میں گمشدہ ناموں، اور سوشل میڈیا پر گونجتے سچ کے جڑوں کا جال ہے۔
قابض ریاست کے پاس بندوقیں ہیں، توپیں ہیں، عدالتیں ہیں، مگر معانی کی دنیا میں وہ ایک اجنبی، ایک بھٹکی ہوئی روح ہے۔ آج جب وہ ریاستی رٹ کا راگ الاپتا ہے، تو درحقیقت اپنی لغت کی بے بسی کا ماتم کر رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ جہاں الفاظ ریاست کا ساتھ چھوڑ دیں، وہاں طاقت خود ایک بےمعنی ڈھانچہ بن جاتی ہے۔
بلوچ نوجوان آج جب “وطن” کہتا ہے تو وہ وہی زمین نہیں مراد لیتا جو نقشوں میں قید ہو، بلکہ وہ سچائی مراد لیتا ہے جو ریاست کے جھوٹے الفاظ سے پرے ہے۔ ہر ترقیاتی منصوبہ، ہر صوبائی خودمختاری، ہر قومی دھارا، بلوچ کے لیے ریاستی قبضے کی نئی لغتیں ہیں، جنہیں وہ ہر روز اپنے شعور سے مسترد کر رہا ہے۔ گویا لغت کی ہر مسموم اینٹ جو ریاست چن رہی ہے، بلوچ اپنے انکار کی ضرب سے گرا رہا ہے۔
بی وائی سی کے نوجوان جب گرفتاریوں کا سامنا کرتے ہیں تو ان کا سب سے بڑا جرم یہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے بینر اٹھایا یا نعرے لگائے۔ ان کا اصل جرم یہ ہوتا ہے کہ وہ لغت کی نئی بنیادیں رکھ رہے ہیں۔ اغوا کو جبری گمشدگی، قتل کو نسل کشی، استحصال کو نوآبادیات کہنے کی جرات کررہے ہیں۔ اور یہ وہ جرم ہے جس کی سزا ریاست اپنے تمام اسلحے، اپنے تمام ججوں، اپنے تمام دانشوروں کے ذریعے بھی مکمل نہیں کر سکتی۔
فینن نے کہا تھا کہ استعمار زدہ انسان کی سب سے بڑی جدوجہد اپنی لغت کی بازیافت ہے۔ یہ بازیافت بندوق سے شروع ہو سکتی ہے، مگر مکمل تب ہوتی ہے جب بندوق کے ساتھ زبان بھی آزاد ہو۔ بلوچ آج دونوں محاذوں پر لڑ رہا ہے، جسم پر بھی، اور لغت پر بھی۔ جبری گمشدگی کے خلاف نکلنے والی بلوچ مائیں اپنے ہاتھوں میں جو بینر اٹھاتی ہیں، وہ دراصل لغت کی نئی تحریریں ہیں۔
پاکستانی آرمی چیف کی تقریر میں جھلکتا ہوا خوف اسی بازیافت کا شاخسانہ ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ جی دس نسلیں بھی بلوچوں کو کامیاب نہیں کرا سکتیں، تو درحقیقت وہ اعتراف کر رہے ہوتے ہیں کہ معنی کے محاذ پر شکست اتنی مکمل ہے کہ نسلیں بدلنے پر بھی قابو ممکن نہیں رہا۔ زبان کی یہ آزادی وقت سے آزاد ہوتی ہے۔ اور جس لغت کی بیج بونے والی مائیں، لاشوں پر سر اٹھائے بہنیں، قید خانوں میں نظریہ لکھنے والے نوجوان ہوں، اس لغت کو کوئی بندوق، کوئی عدالت، کوئی آرمی چیف شکست نہیں دے سکتا۔
یہ وہ لمحہ ہے، جہاں بندوق اور لغت ایک دوسرے کی حفاظت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ بندوق ان الفاظ کی حفاظت کر رہی ہے جنہیں ریاست مٹانا چاہتی ہے، اور الفاظ ان جسموں کو معانی دے رہے ہیں، جو بندوقوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ اب لغت اور مزاحمت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں۔ اب نہ لغت بغیر مزاحمت کے باقی رہ سکتی ہے، نہ مزاحمت بغیر لغت کے زندہ رہ سکتی ہے۔
ایسے میں بندوق کا سوال ایک نئی معنویت اختیار کرتا ہے۔ بندوق اب محض فزیکل دفاع کا آلہ نہیں رہتا، بلکہ لغت کی بقاء کا ضامن بن جاتا ہے۔ اگر لغت کو دشمن کے نشانیاتی حملے سے بچانا ہے، تو بندوق کا فرض صرف جسم کا نہیں، زبان اور شعور کا بھی دفاع کرنا ہوتا ہے۔ لغت اگر زخمی ہو جائے تو بندوق بھی بےمعنی ہو جاتی ہے، کیونکہ جس قوم کی زبان کو شکست دی جائے، اس کی گولی بھی آخرکار استعمار کی لغت میں دہشتگردی کہلائے گی۔
ہمیں الجزائر کی تاریخ یاد رکھنی چاہیے۔ انہوں نے جنگ جیتی، فرانسیسی فوج کو نکالا، لیکن لغت ہار گئے۔ آج بھی الجزائر کا سرکاری انتظام، تعلیم، اور عدالتیں فرانسیسی زبان و شعور میں قید ہیں۔ آزادی کی زمین چھین لی گئی مگر معانی آج بھی نوآبادیاتی ہیں۔ یہی المیہ لاطینی امریکہ میں ہوا، جہاں ہسپانوی قبضہ ختم ہو گیا، مگر سوچنے کا طریقہ، لکھنے کا انداز، قانون کی زبان سب استعماری لغت میں محصور ہو گئے۔ ایک آزاد جسم کے اندر غلام دماغ رکھ دیا گیا۔
بلوچستان کے ساتھ بھی یہی منصوبہ جاری ہے۔ پاکستانی ریاست جانتی ہے کہ وہ ہر پہاڑ پر چیک پوسٹ نہیں لگا سکتا، مگر ہر لفظ پر ضرور پہرہ لگا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مزاحمت کو دہشتگردی، بی وائی سی کو شدت پسندی، اور بلوچ نوجوان کو را کا ایجنٹ بنا دیا گیا ہے۔ یہ نشانوں کی جنگ ہے، جہاں فتح صرف وہی حاصل کرے گا جو اپنی لغت، اپنے معانی، اور اپنے سوالات کو دشمن کے تصورات سے آزاد کر لے گا۔
لغت اور بندوق، دونوں کا ایک مشترکہ مقدس فریضہ ہے کہ زندگی کو، سچائی کو، شناخت کو آزاد رکھنا۔ جس دن لغت ہار گئی، اس دن بندوق بھی اپنی سمت کھو دے گی اور جس دن لغت بچ گئی، چاہے لاشوں کے انبار لگ جائیں، قوم پھر بھی زندہ کہلائے گا۔
تاریخ ہمیشہ اُن اقوام کی تحاریر سے نہیں لکھی جاتی جو فتح کے نشے میں گم ہو جاتی ہیں، بلکہ اُن ہاتھوں سے لکھی جاتی ہے جو شکست کے ملبے تلے بھی اپنی لغت، اپنی صدا، اپنی سچائی کو بچا لیتے ہیں۔ بلوچ قوم، جسے سنگینوں سے ڈرایا گیا، جسے نصابوں میں مٹایا گیا، جسے میڈیا کے بیانیے میں مسخ کیا گیا، آج اس فکری طوفان کے عین مرکز میں کھڑی ہو کر اعلان کرتی ہے کہ ہماری جنگ فقط زمین کی بازیافت کی نہیں، معانی کی بازیافت کی بھی ہے۔ بندوق جس جسم کو بچاتی ہے، لغت اُس روح کو آزاد کرتی ہے؛ اور جس دن کوئی قوم اپنی لغت کو دشمن کے سائے سے نکال لے، وہ لمحہ اس کی تاریخ میں ایک ناقابلِ تنسیخ آزادی کا پہلا حرف بن جاتا ہے۔
ہم وہ قوم ہیں جس نے اپنی لغت کو جلتے گھروں، گمشدہ لاشوں، اور خون آلود پگڈنڈیوں سے کشید کیا ہے؛ ہم نے دشمن کے ہر استعماری استعارے کو اپنے شعور کی ضرب سے مسمار کیا ہے؛ ہم نے جان لیا ہے کہ ریاستی الفاظ کی چمک دمک صرف جھوٹ کی بوسیدہ عمارتیں ہیں۔ اب ہم اپنے لہو سے ایسے الفاظ تراش چکے ہیں جو نہ جھکیں گے، نہ بکیں گے، نہ مٹیں گے۔ یہی ہمارا اصل محاذ ہے، وہ جنگ جوصرف پہاڑوں سے نہیں، ذہنوں کی گہرائیوں میں لڑی جاتی ہے؛ وہ مزاحمت جو بندوق کی گھن گرج سے آگے، لغت کے ہر ذرے میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اور جب دنیا تاریخ کے اوراق پلٹے گی تو وہ دیکھے گی کہ بلوچ قوم نے نہ صرف اپنی زمین کا دفاع کیا بلکہ اپنی لغت کو بچا کر اپنے وجود کو دائمی بنا دیا۔ کیونکہ بالآخر لغت ہی وہ آخری قلعہ ہے جہاں سے اقوام اپنی آزادی کی اذان دیتی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں