کراچی، اتوار کے روز کراچی کے علاقے ملیر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نکالی گئی پرامن ریلی پر پولیس نے فائرنگ اور لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں متعدد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ ترجمان بی وائی سی کے مطابق اس ریاستی جبر کی شدت نے مظاہرین میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی یہ ریلی کراچی کے شرافی گوٹھ، ملیر میں منعقد کی گئی تھی، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ شرکاء میں بڑی تعداد خواتین کی بھی تھی، جو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے بینرز اور تصویریں اٹھائے شریک تھیں۔ مظاہرین نے کوئٹہ کی جیل میں قید بلوچ رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، بیبو بلوچ، شاہ جی بلوچ اور دیگر سیاسی اسیران کی رہائی کا مطالبہ کیا اور نعرے بازی کی۔
ریلی مکمل طور پر پرامن تھی، لیکن عینی شاہدین کے مطابق پولیس نے اچانک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی، اور بعد ازاں لاٹھی چارج کرتے ہوئے کئی افراد کو حراست میں لے لیا۔ گرفتار افراد میں خواتین اور نوجوان شامل ہیں، جنہیں نامعلوم مقامات پر منتقل کیے جانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
ترجمان بی وائی سی نے سوال اٹھایا ہے کہ پرامن مظاہرے کو طاقت کے ذریعے کچلنے کا کیا جواز تھا؟ ایک جمہوری ریاست میں سیاسی اسیران کی رہائی کا مطالبہ کرنا جرم کیسے بن گیا؟
مظاہرین کا کہنا ہے کہ بلوچ عوام پہلے ہی اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور ریاستی بربریت کا شکار ہیں، اور اب انہیں پرامن احتجاج کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی۔
بی وائی سی کے ترجمان نے کہا کہ کراچی کے بعد بلوچستان کے اہم صنعتی شہر حب میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے پرامن مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی، لاٹھی چارج کیا اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ یہ واقعہ بلوچ سیاسی کارکنان اور رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف کیے جانے والے احتجاجی مظاہرے کے دوران پیش آیا۔
آج بروز اتوار، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ حب میں مظاہرین نے ریاستی جبر، غیر قانونی حراستوں اور سیاسی اسیران کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کیا، لیکن ریاستی اداروں نے ایک بار پھر پرامن احتجاج کو تشدد کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔
عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی مظاہرہ آگے بڑھا، پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور پرامن مظاہرین پر فائرنگ اور لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ اس دوران کئی مظاہرین کو زدوکوب کر کے حراست میں لے لیا گیا۔ مظاہرین میں خواتین، بزرگ اور نوجوان شامل تھے، جو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اقدامات کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔