بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے مستونگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمارا دھرنا ناکام ہے تو راستے کیوں بند کیے گئے ہیں؟ فورسز کی تعیناتی، کنٹینرز کی موجودگی اور سڑکوں کی بندش خود ان کے دعوؤں کی نفی کرتی ہے۔ ہم کوئی بیرونی طاقت نہیں، عام لوگ ہیں جو اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بی این پی کے متعدد کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے، جبکہ ایف سی نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں چار افراد زخمی ہوئے، جن میں سے دو کی حالت نازک ہے۔ خواتین پر لاٹھی چارج اور گھروں میں گھس کر کارروائیوں کی بھی اطلاعات دی گئیں۔
بی این پی سربراہ نے کہا کہ ہم سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی آپس میں خود ہی مذاکرات کررہے ہیں۔
اختر مینگل نے کہا کہ اگر خواتین کو گرفتار کیا جاسکتا ہے تو مجھے گرفتار کرنے میں کیوں ہچکچاہٹ ہے؟ میں نے خود پیشکش کی تھی کہ ان بچیوں کو چھوڑ کر اگر بی این پی کی قیادت کو گرفتار کرنا ہے تو کرلیں، لیکن وزراء کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں گرفتار کرنے کے مجاز نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت اگر چاہے تو مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتا ہے، مگر اگر گرفتاریاں اور جبر کا راستہ اپنایا گیا تو احتجاج میں شدت آئے گی۔ اختر مینگل نے موجودہ حکومتی طرز عمل کو سیاسی جبر اور غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر سیاستدانوں کو سیاسی اصولوں پر سیاست کرنے نہ دی گئی تو ملک تباہی کی طرف جائے گا۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ آج بلوچستان بھر میں بی این پی کی کال پر کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال نے ثابت کردیا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں، اور یہ پیغام ہے ان تمام قوتوں کے لیے جو عوامی آواز کو دبانا چاہتی ہیں۔