میرا دلو میرا رہبر
تحریر :ریحان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
19 فروری 2013 کو جب مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ پاکستانی آرمی نے بلوچ سرمچاروں کی کیمپ پر حملہ کیا تو کیمپ اور مادر وطن کے دفاع کیلئے دوست اپنے اپنے پوزیشنیں سنبھالنے لگے. دو دن تک رہنے والے اس جنگ کے بعد جب سارے دوست ایک جگہ پر اکٹھے ہوئے تو اکثر دوستوں کے جیبوں میں دو دو گولیاں الگ سے رکھے ہوئے تھے، ان دو گولیوں کو الگ جیب میں اسلیئے رکھے ہوئے تھے کہ اگر گولیاں ختم ہوئیں، تو زندہ دشمن کے ہاتھ لگنے سے خود کو ہی گولی مار کر وطن کی محبت اور دوستوں کی حفاظت کی خاطر قربان کی ہوا جائے.
جب سب آپس میں گپ شپ میں مشغول ہوئے تو دلجان نے اپنے جیب سے دو گولی نکال کر مزاق میں ہنستے ہوئے کہا کہ دیکھو یار میں نے بھی اپنے لئے الگ سے گولی رکھے ہیں. وقت گذرتا گیا، سب اپنے اپنے زمہ داریوں کو نبھاتے چلے، حالات بھی روز بروز بدلتے گئے، دوستوں کی سلسلہ وار شہادتیں بھی سب دوستوں پر گہرا اثر چھوڑنے لگے. کبھی دشمن کا غلبہ تو کبھی ہمارے اندرونی مسئلے، ان سب مشکلات، تکالیف، آزمائشوں میں دلجان کو ہمیشہ ثابت قدم، شفیق اور رہنمائی والا دوست پایا۔ جو خود بلند حوصلوں کا مالک تھا اور مجھ جیسے کمزور دوستوں کی ہمیشہ رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتا. دلجان جیسے شفیق، بلند حوصلوں کا مالک خود غرضی، خود نمائی، بے حسی سے دور اپنے زمہ داریوں کو پورا کرنے میں دن رات کوشاں رہتے ہیں اور مادر وطن کی ایک ہی پکار پر دلجان جیسے عظیم فرزند اپنے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ انہی عظیم فرزندوں پر تاریخ فخر کرتی ہے، جو انا پرستی، بد نیتی، خود غرضی سے دور مخلصی، نیک نیتی، ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
وقت گذرتا گیا، دلجان اپنے زمہ داریوں کو خلوص دل، نیک نیتی، محنت اور ایمانداری سے پورا کرتا رہا۔ شور پارود میں کئی سال گذارنے کے بعد دلجان ایک نئے عزم، ایک نئی سوچ کے ساتھ، ایک نئی تاریخ رقم کرنے جھالاوان چلاگیا۔ شور پارود کے اس کٹھن دور کے تجربے، ہمارے اندرونی مسئلے اور ہر چار سال بعد ٹوٹنے کے عمل نے دلجان کے سوچ وفکر کو اور بھی پختہ کردیا تھا اور انفرادی، گروہی سوچ سے بالاتر قومی اور اجتماعی سوچ رکھتا تھا۔ دلجان نے دن رات مسلسل کوشش کرکے دوستوں کو ایک ایک کرکے اکٹھا کیا اور ایک نئے سرے سے ایک نئے سوچ اور عزم کیساتھ منظم انداز میں کام کرنا شروع کیا۔
دلجان کامیابی اور خلوص سے اپنا فرض ادا کرتا ہوا زہری کے علاقے تراسانی میں دشمن کیساتھ تین گھنٹے کے مسلسل جنگ کے بعد گولیاں ختم ہونے پر دشمن کے ہاتھوں زندہ گرفتاری کے بجائے خود کو آخری گولی مار کر مادر وطن پر قربان کردیا. دلجان جسمانی طور پر تو ہم سے جدا ہوا لیکن وہ آج بھی ہمارا رہنمائی کررہا ہے۔ آج بھی دلجان سمجھارہا ہے کہ کس طرح اپنے مقصد کو آگے لیجاؤ، وہ آج بھی ہمیں چپکے سے دیکھ رہا ہے کہ کیا ہم اپنے حصے کے کام خوش اسلوبی سے کر رہے ہیں کہ نہیں. وہ آج پند ڈکھ خواری میں ہمارے حوصلے باندھ رہا ہے. وہ آج بھی تیز دھوپ میں گھنا سایہ بن کر ہمیں راحت بخش رہا ہے. وہ آج بھی اندھیری رات کے مسافت میں چاند بن کر ہمیں راستہ دکھا رہا ہے.
دلجان زندہ ہے شور قلات کے ہواؤں میں، نوشکی کی پہاڑوں میں آج بھی دلجان کی ہنسی کی آواز گونجتی سنائی دیتی ہے۔ آج بھی دلجان کی آواز صبح سویرے گونجتی ہے جب وہ اپنا بیگ اٹھا کر کہتا ” جلدی کرو جلدی کرو کام بہت ہے مجھے جلدی پہنچنا ہے…..” آج بھی دلجان کی وہ مہربان مسکراہٹ شور کے پہاڑوں میں مہر و محبت، انسانیت دوستی وفا اور شعور بانٹتا ہے. دلجان روشنی ہے، بلا روشنی کو کوئی ختم کرسکتا ہے؟ وہ روشنی جو ظلم و جبر، انا پرستی،بے حسی، خود غرضی، منافقت، جھوٹ، خوش آمدی اور درباری خیالات کے اندھیرے کو چیر کر ایک اُجلا سویرا لاتی ہے۔