بلوچستان میں ریاستی دہشت گردی کے خلاف عوامی مزاحمت تاریخ رقم کر رہی ہے – بلوچ یکجہتی کمیٹی

122

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ریاستِ پاکستان کی دہشت گردی، بربریت اور مظالم کے خلاف اس وقت پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ ریاست نے بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ، بیبگر بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر متعدد رہنماؤں و کارکنان کو گرفتار کر لیا ہے۔ تاہم، ان قومی رہنماؤں کی گرفتاری کے باوجود عوامی آواز دبنے کے بجائے مزید شدت کے ساتھ ابھری ہے۔ گزشتہ پانچ دنوں سے بلوچستان کے ہر شہر اور ہر گاؤں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور اس جبر و ظلم پر مبنی نظام کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت بلوچستان کی عوامی مزاحمت، ریاستِ پاکستان کے جبر و استبداد پر مبنی نظام کے خلاف ایک عوامی ریفرنڈم کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں بلوچستان کے عوام واضح طور پر اس نظام کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں ریاستی جبر اپنے عروج پر ہے، جہاں ریاست بلوچ عوام پر آئین و قانون کے ذریعے حکمرانی کرنے کے بجائے طاقت، بندوق اور تشدد کے ذریعے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا واضح مقصد بلوچ عوام کے درمیان خوف و ہراس پیدا کر کے انہیں غلام اور تیسرے درجے کے شہری کے طور پر رکھنا ہے۔ لیکن بلوچ عوام نے ریاستی جبر کے سامنے خاموش رہنے یا طاقت کے زور پر حکمرانی کو تسلیم کرنے کے بجائے، اس جبر پر مبنی نظام کو چیلنج کیا ہے اور اس کے خلاف بھرپور عوامی مزاحمت کر رہے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی سمجھتی ہے کہ اس وقت بلوچستان میں ریاستِ پاکستان کے جبر و استبداد پر مبنی نظام کے خلاف منظم عوامی مزاحمت اس بات کی نوید ہے کہ بلوچ عوام ریاستی ظلم و جبر کے اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ عوام نے جس طرح جبر کے اس نظام کے خلاف مزاحمت کا پرچم تھاما ہے، اس سے ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور حواس باختگی میں بلا تفریق عوام کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جبر و استبداد پر قائم ریاستی نظام بلوچستان میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اپنے تمام زونز اور کارکنان کو تاکید کرتی ہے کہ بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں میں اس عوامی مزاحمت کو مزید منظم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ عوام کو متحرک کیا جائے اور اس مزاحمت کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے۔ اس وقت جبر کے خلاف عوامی مزاحمت ہی واحد راستہ ہے اور اس جدوجہد میں کامیابی مظلوم بلوچ عوام ہی کی ہوگی۔