لالی زندہ ہے – برزکوہی

1133

لالی زندہ ہے

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمت، حوصلہ، قربانی، ثابت قدمی، شجاعت، مخلصی، استطاعت اور وفا شعاری کے لازوال موتیوں کو اگر ایک ہی ڈوری میں پرویا جائے تو اُس سے جو چہرہ روزِ روشن کی طرح جگمگاتا ہے، وہ لالی ہی ہوتا ہے۔ ایک ایسا سرمچار جس کی آنکھوں میں سمندر کی گہرائی بھی ہے اور آتشِ قہر کی تپش بھی۔ لالی وہ ہے جو الفاظ کے بجائے عمل کی زبان میں گفتگو کرتا ہے، جو مزاحمت کے لہو رنگ چراغ سے امیدوں کی دیوار پر روشنی بکھیرتا ہے، جو اندھیروں کی سنگین گلیوں میں اپنی دیدِ فرقاں سے روشنی بھر دیتا ہے۔ لالی وہ ہے جو محض للکار نہیں بلکہ وار کرتا ہے، جو دشمن کو ناقابلِ تسخیر مہمات میں الجھا کر اُسے بے اجل کر دیتا ہے۔ آج بھی لکّڑ و بزگر اور مارگٹ کی چوٹیوں پر قہر کا الاؤ دہکائے بیٹھا ہے، سنگلاخ سارو اور یخو کی برف پوش چوٹیوں پر بے آواز بجلی کی مانند اپنی عقابی آنکھوں میں حکمت کے بادل لیے دشمن کے زوال کی بارش برسانے کو تیار ہے۔ وہ آج بھی فاتح نپولین بوناپارٹ کے اس فرمان کو عملی شکل دینے میں مصروف ہے کہ:
“غور و فکر میں سست، مگر عمل میں بجلی کی مانند تیز ہونا چاہیے۔”

لالی زندہ ہے۔ وہ آج بھی دشمن کے دلوں میں لرزہ بر اندام بجلی کی طرح گونج رہا ہے اور اپنوں کے دلوں میں وفا کے چراغ کی مانند فروزاں ہے۔ جب تک قربانی، شجاعت، اور مخلصی کے بے غرض ہیرے وطن زادوں کے ہاتھوں تراشے جاتے رہیں گے، جب تک سیاہ راتوں کی تقدیر بدلنے کے لیے لہو کی شمعیں جلتی رہیں گی، لالی زندہ رہے گا۔ وہ ایک نظریہ، ایک استعارہ، اور ایک درسگاہ ہے، جس کی تعلیم بولان کے صدیوں پر محیط زخموں میں نقش ہوچکی ہے، مکران کے بے قرار دریاؤں میں دھڑک رہی ہے، بارکھان کے سنگلاخ راستوں میں لہو سے لکھی جا چکی ہے، اور ڈیرہ غازی خان کے باغی فدائیوں کے دلوں میں طوفان بن کر ابل رہی ہے۔ وہ ناقابلِ تسخیر ہے، کیونکہ وہ بولان کی طرح صدیوں سے دشمن کے خوابوں کا تابوت بن کر کھڑا ہے۔

بامقصد جنگوں کا سب سے اذیت ناک لمحہ وہ ہوتا ہے، جب ایک نظریاتی ساتھی، ایک ایماندار اور بے لوث ہمسفر، جسمانی طور پر جدا ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا زخم ہے جسے نہ کوئی شاعر بیان کر سکتا ہے، نہ کوئی قصہ گو مکمل کر سکتا ہے، یہ ایک ان کہی کہانی ہے جسے صرف ایک ہمسفر جہدکار کا دل محسوس کر سکتا ہے۔ لالی سمالانی کی جسمانی جدائی بھی ایک ایسا ہی زخم ہے، جو دل میں بیک وقت آتشِ سوزاں بھی ہے اور فخر کا چمکتا ہوا گوہر بھی۔ وہ آج سرمچاری کہانیوں میں ایک باب نہیں، بلکہ ایک تاریخ بن چکا ہے۔ وہ جسمانی طور پر معرکوں کی سربراہی کے لیے نہیں، مگر اس کی گونج پہاڑوں کے دامن میں ہر مورچہ زن کے سینے میں دھڑک رہی ہے۔

ماضی میں لالی بیگ جیسے دوستوں کی شہادت عارضی مایوسی کا سبب بنتی تھی، مگر آج ایسا نہیں۔ آج یہ شہادت جنگ میں ایک نئے باب کی شروعات کا اعلان ہے، ایک ایسا اعلان جو امید، جذبے، اور جنگی مہارت کی ناقابلِ تسخیر لہر کے ساتھ دشمن کے سینے پر اُتر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لالی کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ ہزاروں نئے لالی اُگائے گا، جو محبت، وفا، اور مزاحمت کے بیج کو اس دھرتی میں بودیں گے، اور پھر اُن کی مہک دشمن کے ایوانوں میں قیامت برپا کرے گی۔

لالی کی قیادت، اس کی تنظیمی سوجھ بوجھ اور ساتھیوں سے ہم آہنگی ایسی تھی کہ گویا رابرٹ گرین نے اپنی پوری “33 اسٹریٹجیز آف وار” لالی کے نام لکھ دی ہو۔ اس کتاب میں قیادت کے جس ماڈل کا ذکر کیا گیا ہے، وہ لالی کی زندگی میں سانس لیتا نظر آتا ہے۔ گرین لکھتا ہے:
“اگر آپ بہت زیادہ آمرانہ بنیں گے تو لوگ آپ سے باغی ہو جائیں گے، اگر بہت زیادہ نرم رویہ اختیار کریں گے تو وہ اپنی مرضی چلائیں گے۔ قیادت وہ فن ہے جس میں آپ پابندیاں بھی عائد کریں، مگر لوگ انہیں زنجیر نہ سمجھیں؛ آزادی بھی دیں، مگر وہ بغاوت نہ بن جائے۔”

لالی نے یہ اصول زمین پر اتارا تھا۔ وہ محض جنگجو نہیں تھا، وہ ایک اسکول تھا، ایک نظریہ تھا، ایک تحریک تھا۔ اس نے دشمن کے انسدادِ تحریک کے منصوبوں کو چکنا چور کرنے کے لیے روایتی اور غیر روایتی گوریلا حکمت عملی کو یکجا کیا۔ لالی نے ثابت کیا کہ جنگ صرف طاقت کا کھیل نہیں، یہ ذہن، صبر، حکمت، اور جدید مہارتوں کا امتحان بھی ہے۔

جنگی نفسیات کے ماہر چُوکو لیانگ کے بقول:
“اگر آپ صرف اپنی حفاظت کے لیے مورچے میں دبک جائیں، اور دشمن کی آمد پر ردِعمل کا فن نہ سیکھیں، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی پرندہ خیمے کے سائے میں گھونسلا بنا لے، یا کوئی مچھلی محض تالاب میں تیرنے کو زندگی سمجھے۔ ایسی صورت میں دونوں فنا کے گڑھے میں جا گریں گے۔ لالی نے اس ذہنیت کو چیلنج کیا۔ وہ فقط محفوظ رہنے کے قائل نہیں تھے؛ وہ دشمن کی آمد سے قبل ہی اس کی چالوں کو توڑنے والے ذہن کے حامل تھے۔ اُس نے ہم سب کو سکھایا کہ تحفظ کا اصل فلسفہ عمل کی جارحیت میں پنہاں ہوتا ہے، نہ کہ ساکت انتظار میں۔ “

لالی بیگ ہمیشہ ایک خاموش سمندر کی مانند متحرک رہتے تھے۔ ان کی خامشی شور کی ضد نہیں تھی، بلکہ وہ گہرائی کی علامت تھی؛ ایک ایسی گہرائی جہاں ہر لہر میں تدبر، ہر سناٹے میں حکمت، اور ہر نظر میں بصیرت چھپی ہوتی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ایک مجاہد کو عمل میں برق رفتاری اور سوچ میں ٹھہراؤ کے امتزاج سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہیے۔ کیونکہ اصل دانش وہ نہیں جو سطح پر تیرتی ہو، بلکہ وہ ہے جو گہرائی میں غوطہ زن ہونے کا حوصلہ رکھتی ہو۔ جنگ بھی زندگی کی دیگر حرکیات کی مانند ایک دو دھاری تلوار ہے: ایک طرف وہ عمل کی روانی، چستی، اور فیصلہ کن جرأت کا تقاضا کرتی ہے، اور دوسری طرف وہ تدبر، سوجھ بوجھ، چالاکی، اور غیرمعمولی حاضر دماغی کی متقاضی ہوتی ہے۔

لالی وہ نایاب سرمچار تھا جو نپولین بوناپارٹ کے ان الفاظ کا چلتا پھرتا استعارہ تھا، جسے رابرٹ گرین اپنی کتاب میں یوں نقل کرتا ہے:
“کسی سپہ سالار کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس کا دماغ ٹھنڈا ہو۔ ایسا دماغ جو چیزوں کو درست تناظر میں دیکھے؛ جو نہ بری خبر سے گھبرائے، نہ خوشخبری سے جھوم اٹھے؛ جو دن بھر کے تمام احساسات کو گروہ در گروہ ترتیب دے، اور ہر جذبے کو اس کی مناسب جگہ پر رکھے۔ کیونکہ عقل و معاملہ فہمی ہمیشہ جذبوں کے تجزیے اور موازنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ لالی نے جذبات کو اپنا ڈھال بنایا، مگر کبھی ان پر سوار نہیں ہوا۔ اس نے عقل کو اپنے تلوار کا دستہ بنایا، مگر اسے خود پر حاوی ہونے نہ دیا۔ وہ جذباتی تھا، مگر بے قابو نہیں؛ وہ عقلمند تھا، مگر جامد نہیں۔

مزید برآں، نوآبادیاتی جنگوں میں سب سے نازک مرحلہ اس بات کا شعور حاصل کرنا ہوتا ہے کہ جنگ محض ایک قابض کو زمینی حدود سے بے دخل کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور گہرائی میں اتر جانے والا عمل ہے۔ یہ محض بندوق اور بارود کا کھیل نہیں، بلکہ ایک ذہنی، نفسیاتی، ثقافتی اور روحانی معرکہ بھی ہے۔ کیونکہ نوآبادکار جب کسی خطے پر قبضہ کرتا ہے، تو وہ صرف زمین پر نہیں بیٹھتا، وہ دل و دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے۔ وہ مقامی زبان کو مسخ کرتا ہے، ثقافت کو کمزور کرتا ہے، فطرت کو آلودہ کرتا ہے، اور سب سے بڑھ کر شناخت کو بدل دیتا ہے۔یہ تبدیلی محض رنگ، رسم، یا تمدنی علامات کی حد تک نہیں ہوتی، بلکہ وہ ان مظلوم قوموں کے دل و دماغ میں مکمل طور پر نئی اقدار، احساسات، معیار اور رویے داخل کرتا ہے۔ اس نئی پہچان کے سایے میں ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو کسی بھی سماج کے اندر سے اسے کھوکھلا کر دیتی ہیں، جیسے چاپلوسی، مفاد پرستی، جھوٹ، سازش، سازگار بننے کی ہوس، اور سطحی کامیابیوں کے پیچھے اندھا دھند دوڑ۔ ان بیماریوں کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مظلوم کو ظالم سے نفرت کرنے کے بجائے اسی جیسا بننے کی خواہش میں مبتلا کر دیتی ہیں۔

لالی ان تمام نفسیاتی استعماروں کے خلاف ایک چلتا پھرتا انکار تھا۔ اس نے نہ صرف ظاہری دشمن سے جنگ لڑی، بلکہ اس کالونائزڈ ذہنیت سے بھی ٹکر لی جو اکثر آزادی کے نام پر تحریکوں میں بھی در آتی ہے۔ لالی اس بات کو سمجھتا تھا کہ اگر انقلابی تحریک کے اندر بھی رشتے داری، سینئیرٹی، ذاتی مفادات، خوشامد، اور گروہی وابستگی کی بنیاد پر فیصلے کیے جائیں گے تو وہ تحریک ایک دن انہی استحصالی قوتوں کا عکس بن جائے گی جن کے خلاف وہ وجود میں آئی تھی۔

لہٰذا، لالی کا طرزِ فکر ایک شفاف، بے غرض اور decolonized انقلابی معیار پر قائم تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ذمہ داریاں صرف ان ہاتھوں میں دی جانی چاہئیں جو اخلاص، قابلیت، ثابت قدمی، فکری پختگی، اور تنظیمی وفاداری کے ساتھ مزین ہوں۔ یہ وہی اصول تھا جس پر وہ نہ صرف خود قائم رہا بلکہ دوسروں کو بھی اسی پر پرکھتا تھا۔ اس کے نزدیک، صرف شہید ہونا قربانی نہیں بلکہ زندگی کو مکمل طور پر جدوجہد کے لیے وقف کرنا ہی اصل قربانی ہے۔

لالی جیسے جہدکاروں نے یہ بات عملی طور پر ثابت کی کہ اگر صف بندی اور ذمہ داریوں کی تقسیم میرٹ، اخلاص، تدبر، اور انقلابی سچائی کی بنیاد پر ہو، تو وہ تحریک صرف وقتی ردعمل نہیں رہتی، بلکہ وہ ایک تاریخی قوت میں ڈھل جاتی ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا منبع بن جاتی ہے۔ لالی کے اندازِ قیادت نے اس بات کو سچ کر دکھایا۔

اس تناظر میں جب ہم ان فکری طبقات کو دیکھتے ہیں جو آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف وہی افراد تحریکوں کی قیادت کے اہل ہیں جو کالونیکل نظام سے سند یافتہ ہوں، یا وہ جنہوں نے مغربی نظریات کا طوطا بن رکھا ہو، تو لالی کی ذات ان تمام افکار پر ایک خاموش مگر کاری ضرب ہے۔ اس نے ہمیں یہ سکھایا کہ قیادت محض ڈگری یا فلسفہ نہیں، بلکہ عمل، قربانی، اور مسلسل سیکھنے کا نام ہے۔

لالی نہ تو کسی روایتی فوجی اکیڈمی کا تربیت یافتہ تھا، نہ ہی کسی فلسفیانہ مکتبِ فکر کا پیروکار تھا؛ نہ وہ کتابی نظریات کا قیدی تھا، نہ کسی نظریاتی تقلید کا پیرو۔ وہ زمین کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک ایسا جہدکار تھا جس نے قربانی، بے غرضی، نظم و ضبط اور صبر کے اسباق شہداء کے خیموں میں سیکھے، جو سنگر میں پل کر بڑا ہوا، جو جنگ کے شعلوں میں کندن بنا، اور جس نے خود کو مسلسل تپتی ہوئی آگ میں ڈال کر مزاحمت کا ہنر سیکھا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں چینی انقلابی رہنما ماؤ زے تنگ کی بات یاد آتی ہے، جسے لالی کی عملی زندگی سے جوڑا جا سکتا ہے:
“پڑھنا سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے، مگر عمل کرنا اس سے بھی اہم سیکھنے کا عمل ہے۔ ہمارا بنیادی طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم جنگ کو جنگ سے سیکھیں۔ جو شخص اسکول نہیں جا سکا، وہ بھی جنگ کے میدان میں سیکھ سکتا ہے، وہ لڑ کر سیکھ سکتا ہے۔”

لالی نے اسی راستے کو اپنایا تھا — وہ لڑ کر سیکھتا رہا، سیکھ کر آگے بڑھتا رہا، اور آگے بڑھ کر دوسروں کو سکھاتا رہا۔

اگر ہم مزید غور کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہمارے سماج میں تعلیم کا پیمانہ تو بڑھا ہے، مگر وہ علم جو راہِ فرقاں پر لے جائے، وہ خالص، بے غرض اور نتیجہ خیز شعور ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ ہم نے علم کو محض الفاظ کا مجموعہ، اور تعلیم کو صرف سندوں کا کھیل بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے درمیان ایسے تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں جو شعور سے عاری ہیں، جن کی جیب میں ڈگری ہے مگر ذہن میں اندھی تقلید کا دھواں ہے۔ اور جب تعلیم انسان کو علم کی طرف نہ لے جائے، تو یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ وہ شخص تعلیم یافتہ ہو کر بھی بدترین جہالت میں زندگی گزار رہا ہے۔ اسی لاعلمی، اس فکری سستی اور تقلیدی رویے نے غلامانہ سماجوں میں ایسے طبقات کو جنم دیا ہے جو لغو قسم کی تاویلات اور سطحی بیانیے گھڑ کر نہ صرف خود کو دھوکہ دیتے ہیں، بلکہ پوری نسل کو ایک اندھے کنویں میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایسے لوگ جدوجہد، شجاعت، وفا، محنت، اور بے غرضی جیسے الفاظ کو بھی روایتی معنوں میں گھسیٹ کر ان کی روح کو مسخ کر دیتے ہیں۔ عمل کی طاقت سے ان کی کوئی شناسائی نہیں رہتی، اور وہ صرف لفظوں سے تراشے ہوئے بتوں کی پوجا میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

مگر لالی ان سے بالکل مختلف تھا۔ لالی جیسے باعمل و باشعور جہدکار نے علم کو صرف رسمی اداروں یا کتابوں میں تلاش نہیں کیا، بلکہ وہ تنظیمی و انقلابی میدان میں غیر رسمی تربیت اور تجربے سے سیکھنے والا ایک ماہر سیاسی و جنگی کمانڈر تھا۔ اس نے شعور کو خون، پسینے، اور تجربے سے کشید کیا؛ وہ علم کو عمل سے جدا نہیں کرتا تھا بلکہ اسے اس کا تکمیلی پہلو سمجھتا تھا۔ لالی ہمیشہ کہا کرتا تھا “میں ہمیشہ ایسے دوست تلاش کرتا ہوں جن کی سوچ منفی نہ ہو، جو خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوں۔ اور ساتھ ہی وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ سب سے بڑی رکاوٹ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہر وقت گِلہ و شکوہ کرتے ہیں۔ لالی اس گِلہ پسندی، شکایت، اور منفی سوچ کے شدید مخالف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تنظیمیں، تحریکیں اور جدوجہدیں اُن لوگوں کی موجودگی میں تباہ ہو جاتی ہیں جو ہر بات کو شکایت کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اس چیز پر زور دیتا تھا کہ میرے کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ دوست ہوتے ہیں جو ہر وقت شکوہ کرتے ہیں۔ شکر ہے، میری ٹیم میں ایسے لوگ نہیں۔”

یہی وہ نکتہ ہے جسے رابرٹ گرین بھی اپنی جنگی حکمتِ عملی کی کتاب میں بیان کرتا ہے:
“اگر آپ ہر وقت شکایت کرنے والوں، اور عادی بگڑے ہوئے افراد کو کھلی چھوٹ دے دیں گے تو وہ پوری تنظیم میں بے چینی، انتشار اور مایوسی پھیلا دیں گے۔ اُن سے جلد از جلد چھٹکارا پائیں، اور اپنی توجہ اُن افراد پر مرکوز رکھیں جو زیادہ جذبے اور یقین سے بھرے ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کو مثالی بنا کر سامنے لائیں، کیونکہ وہ شکایت پسندوں کے مقابلے میں توازن قائم رکھتے ہیں۔”

اور اگر ہم جنگی نفسیات کی گہرائی میں جائیں، تو واضح ہوتا ہے کہ شکایت کرنے والے جہدکار اُس وقت زیادہ پیدا ہوتے ہیں، جب تنظیمی تقاضے وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، اور یہ لوگ اس رفتار کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ وہ احساسِ کمتری، ناکامی، یا محدود صلاحیت کے باعث شکایت کو تنقید برائے تعمیر کا لباس پہنا کر خود کو مطمئن کرنے لگتے ہیں۔ لالی ایسے لوگوں کو پہچانتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تنقید برائے تعمیر صرف وہی کر سکتا ہے جو خود بھی میدان میں ہو، جو خطرات مول لے، جو قربانی دے، جو جدوجہد میں شامل ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ حقیقی دانشور، اسکالر اور مفکر کبھی بھی شکایت نہیں کرتے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں، تجزیہ کرتے ہیں، اور عملی طور پر اصلاح کا راستہ نکالتے ہیں۔

لالی خود بھی ان ہی دانشوروں کی صف میں تھا۔ وہ ایک فکری، عملی، اور نظریاتی کردار کا پیکر تھا۔ اس کی سوچ مزاحمتی بھی تھی، اور تدریجی بھی۔ اس کی باتوں میں تجربے کی گہرائی، اور لہجے میں عملی اعتماد جھلکتا تھا۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لالی نے تنظیم کو نہیں اپنایا، بلکہ تنظیم نے لالی کو اپنایا۔

لالی اپنی ایمانداری، مخلصی، وفاداری، اور شہداء کے خون کے ساتھ کیے گئے عہد کی بنیاد پر دشمن کے خلاف لڑا۔ وہ نہ صرف دشمن سے نفرت کرتا تھا، بلکہ اُس نفرت کو عملی طاقت میں تبدیل کرنے کا ہنر بھی جانتا تھا۔ لالی دشمن کے ہاتھوں شہید ضرور ہوا، مگر اس دن ہار دشمن کی ہوئی تھی کیونکہ لالی ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ تھا، ایک فلسفہ تھا، ایک تسلسل تھا اور اُس کے شاگرد آج بھی مورچوں میں مورچہ زن ہیں۔

محض جدوجہد سے رسمی وابستگی، یا نیم انقلابی جذبات میں ڈوبی جز وقتی سرگرمی، کبھی بھی ایک مکمل آزادی کی جنگ میں کسی نتیجہ خیز کردار کی ضامن نہیں بن سکتی۔ اگر کوئی شخص تنظیم، جنگ یا تحریک میں اپنی طبعی مزاج، وقتی آمادگی، یا ذاتی مرضی و خواہش کے تابع شامل ہو، تو وہ اپنے آپ کو فریب دے رہا ہے اور تحریک کا قیمتی وقت برباد کر رہا ہے۔ یہ خود فریبی صرف اپنے وجود کو تسلی دینے کا ذریعہ ہوتی ہے، جبکہ درحقیقت وہ تحریک کی روح کے ساتھ خیانت ہوتی ہے۔

لالی اس غیر سنجیدہ وابستگی کے سخت مخالف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ قربانی صرف جان دینا نہیں ہوتا کبھی کبھی جان دینا آسان ہو جاتا ہے، مگر اپنی مکمل زندگی، اپنی خواہشات، اپنی آسائشیں، اور اپنے ذاتی مفادات کو تحریک کے لیے فنا کر دینا اصل قربانی ہے۔ لالی کے نزدیک قربانی وہ ہے جو شعوری ہو، مسلسل ہو، اور نتیجہ خیز ہو۔ اسی لیے وہ سستی، کاہلی، کوتاہ فہمی، آزاد خیالی، لاپرواہی، اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کو تحریک کے قاتل عناصر سمجھتا تھا۔ وہ اکثر سوال اٹھاتا تھا کہ قومی آزادی کی اس مقدس جنگ کو، جسے شہداء نے اپنے لہو سے سینچا ہے، آخر ایسی بے حسی کیوں گھیر رہی ہے؟ کیوں کچھ جہدکار سستی اور بے عملی کا شکار ہیں؟”

یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں رابرٹ گرین اپنی کتاب “33 حکمت عملیاں برائے جنگ” میں یوں دیتا ہوا نظر آتا ہے:
“ہم اس وقت تھک جاتے ہیں جب ہم بیزار ہو جاتے ہیں، اور بیزاری تب آتی ہے جب ہمیں کسی حقیقی مقابلے کا سامنا نہ ہو۔ جب ہماری زندگی میں خطرہ نہ ہو، جب چیلنج نہ ہو، تو ایک ذہنی اور جسمانی کاہلی ہمیں آ پکڑتی ہے۔ لیکن جب ہم خطرہ مول لیتے ہیں، تو ہمارا دماغ اور جسم پوری توانائی سے ردعمل دیتے ہیں۔ خطرہ ہمیں بیدار کرتا ہے۔ لہٰذا، اپنے آپ کو ہمیشہ خطرے میں محسوس کرو، یہاں تک کہ خطرے کے بغیر جینا تمہارے لیے ناممکن بن جائے۔”

یہی وہ طرزِ فکر تھا جو لالی کی رگوں میں گردش کرتا تھا۔ اس کا وجود ہی خطرے سے ہم آہنگ تھا۔ وہ سکون میں بے چینی محسوس کرتا تھا، اور بے عملی کو فکری موت سمجھتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ ہماری تحریک کو ویسے دشمن نے کم نقصان پہنچایا ہے جتنا ہمیں اپنے اندر موجود بے عملی، سستی، اور غیر انقلابی رویوں نے کمزور کیا ہے۔”

لالی وہ تھا جو عمل کے بغیر کسی دلیل کو دلیل نہیں مانتا تھا؛ جو قربانی کو شہادت تک محدود نہیں کرتا تھا؛ جو جانتا تھا کہ ہر دن کا جینا، انقلابی شعور کے ساتھ، خود ایک مسلسل جنگ ہے۔ اس کی زندگی ایک مسلسل ارتقاء تھا، ایک ایسا ارتقاء جو خوف، مفاد، یا وقتی جذبے سے نہیں، بلکہ بلند نظری، مسلسل نظم و ضبط، اور عملی مطالعے سے عبارت تھا۔اس نے اپنی ہر سانس کو تحریک کا اثاثہ بنایا؛ وہ نہ صرف ایک سپاہی تھا، بلکہ ایک معلم، ایک منتظم، ایک فلسفی، اور ایک شاعرِ مزاحمت بھی تھا۔ اس کی جدوجہد نے یہ بات راسخ کر دی کہ جب تک تحریک کے اندر سے خود فریبی، ذاتی مفاد، اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو اکھاڑ کر پھینکا نہیں جائے گا، تب تک تحریک، محض نعرہ بازی کی حد تک زندہ رہے گی اور دشمن ہمیں عمل سے شکست دیتا رہے گا۔ لالی کی شہادت اُس دن کا زوال نہیں تھا، بلکہ ایک نظریہ کا تسلسل تھا۔ اس تسلسل کو توڑا نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ اب صرف جسم نہیں، بلکہ فکری ستون بن چکا تھا؛ وہ ایک فرد سے بڑھ کر یاد، مثال اور تحریک بن چکا تھا۔

لالی کی زندگی کا ایک اور ناقابلِ فراموش اور درخشندہ پہلو اس کا self-exposure سے گریز تھا۔ وہ نہ تو کسی معرکے کا کریڈٹ خود لیتا، نہ ہی شہرت کی تمنا اس کی لغت میں شامل تھی۔ لالی جانتا تھا کہ جنگ کوئی اسٹیج نہیں جس پر داد و تحسین کی تالیوں کے شور میں قیادت کو ناپا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی قربانی کا کارزار ہے، جہاں اصل کامیابی اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہر سپاہی اپنی جگہ خود کو مکمل سمجھے، اور ہر قیادت اپنی جگہ ایک سپاہی ہو۔ لالی ہر کامیابی کو اپنے ٹیم کے کھاتے میں ڈال کر، خود ایک خاموش سایہ بن کر پس منظر میں موجود رہتا۔ اس کی ترجیح یہ نہ تھی کہ اسے پہچانا جائے، بلکہ یہ تھی کہ اس کی ٹیم بااختیار، باعمل، اور باصلاحیت ہو۔ وہ سمجھتا تھا کہ انقلابی جنگ میں کامیاب معرکہ نہ کبھی حتمی ہوتا ہے، نہ کسی ایک شخص سے وابستہ۔ جنگ تبھی تک زندہ رہتی ہے جب تک اس میں تسلسل، تنوع، اور تربیت کا بہاؤ قائم رہے۔

اسی لیے، لالی کی ساری کوشش یہ رہی کہ اس کے بعد آنے والے جہدکار صرف جنگ کے مقلد نہ ہوں، بلکہ اس کے فکری وارث بنیں۔ اس کی پوری سوچ اس نکتے کے گرد گھومتی تھی کہ اگر ایک انسان فانی ہے، تو اُس کے نظریے کو زندہ رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی بصیرت، اپنی صلاحیت، اور اپنی قربانیوں کو اپنی ٹیم میں منتقل کرے۔

لالی اس بات پر ایمان رکھتا تھا کہ کوئی نظریہ زندہ نہیں رہتا، جب تک وہ اجتماعی عمل کا روپ نہ دھار لے۔ وہ اس حقیقت کو جانتا تھا کہ صرف ایک شخص کے پاس شاندار آئیڈیاز ہونا، یا ناقابلِ تسخیر حکمتِ عملی تیار کر لینا کافی نہیں ہوتا۔ اگر اُس کی ٹیم میں وہ افراد موجود نہ ہوں جو ان خیالات پر نہ صرف یقین رکھتے ہوں، بلکہ انہیں عملی شکل دینے کی صلاحیت اور جرأت بھی رکھتے ہوں تو وہ آئیڈیاز صرف کاغذی خاکے بن کر رہ جاتے ہیں۔

رابرٹ گرین اپنی کتاب میں اسی مقام پر واضح کرتا ہے:
“اگر آپ کے پاس شاندار خیالات ہوں، اور ناقابلِ تسخیر حکمتِ عملی بھی ہو، لیکن آپ کی ٹیم میں ایسے لوگ ہوں جو خودغرض ہوں، جن میں تخلیقی سوچ نہ ہو، یا جو اجتماعی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوں، تو آپ کے تمام آئیڈیاز بیکار ہو جائیں گے۔”

لالی نے اس بات کو نہ صرف سمجھا، بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ وہ ہمیشہ اپنی ٹیم کو مضبوط بنانے، ہر فرد میں قیادت کی جھلک پیدا کرنے، اور اجتماعی قوت کو انفرادی صلاحیت سے بلند کرنے کی جدوجہد کرتا رہا۔ لالی کے نزدیک تنظیم اور جدوجہد ایک مقدس امانت تھے، ایسی امانتیں جن میں ذاتی تشہیر یا شہرت کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس کا فلسفہ یہی تھا کہ شخصیات فنا ہو جاتی ہیں، مگر وہ اقدار جو اُن سے جنم لیتی ہیں، اگر اُنہیں اجتماعی صورت میں زندہ رکھا جائے، تو وہ تحریک کو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لالی آج صرف ایک شہید کا نام نہیں، بلکہ ایک تربیتی مکتب، ایک نظریاتی استعارہ، اور ایک فکری سنگر ہے، جو آنے والے ہر سرمچار کو یہ سکھاتا ہے کہ قیادت نمائش کا نام نہیں، تربیت کا فرض ہے۔

بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں اس وقت بھی ساتھی چائے کی سادہ پیالیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اور ٹھنڈی ہواؤں کی مدھم سرگوشیوں میں گلزمین کی دلکشی اور وطن کی پرخطر خوبصورتی کو دل کے نہاں خانوں میں جذب کر رہے ہیں۔ یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب یاد کی کوئی ایک کرن پورے ماحول کو بدل دیتی ہے ایسا ہی لمحہ آیا جب ایک دوست نے اچانک لالی کا ذکر چھیڑ دیا۔

اُس نے کہا:
“جب بھی میں بے غرضی، ثابت قدمی، مخلصی، صلاحیت، اور وفاداری کے رنگوں کو ایک ہی کینوس میں سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں، تو لالی کا عکس روشن ہو کر اُبھرتا ہے۔ وہ عکس جو صرف یاد نہیں، ایک درس ہے؛ وہ چہرہ جو صرف ماضی کا حوالہ نہیں، بلکہ مستقبل کا نقشہ ہے۔”

یہ الفاظ بولتے ہی فضا کا رنگ بدل گیا۔ پہاڑوں کی خامشی جیسے سننے لگی، ہوائیں تھم سی گئیں، اور لالی کی تصویر ایک روشن، منور، اور چمکتا ہوا عکس بن کر سامنے آ گئی۔ ایک ایسا عکس جس میں صداقت کی کرنیں بھی تھیں، قربانی کا تقدس بھی، اور جہدِ مسلسل کی وہ جھلک جو ہر سرمچار کے خوابوں میں بستی ہے۔ یہ وہی عکس ہے جو تاریخ کے سیاہ اوراق میں چراغ بن کر جلتا رہے گا؛ جو ہر جہدکار کو یہ درس دے گا کہ اگر وہ اپنی ذات کو بھلا کر مقصد سے جُڑ جائے، تو وہ فنا نہیں ہوتا، وہ ایک استعارہ بن جاتا ہے۔

لالی کا چہرہ، جو آج کسی فوٹو فریم میں قید نہیں، مگر ہر سنگر میں موجود ہے۔ آج بولان کے دلفریب نظاروں میں، یوں مسکراتا نظر آیا، جیسے کہہ رہا ہو:
“لالی زندہ ہے۔ کیونکہ افکار اور عمل کی ڈوری میں پروئے کردار کبھی مرتے نہیں۔
لالی زندہ ہے، کیونکہ بولان آج بھی بے غرض جہدکاروں کا مسکن ہے۔
لالی زندہ ہے، کیونکہ اُس کے نقوش کسی طوفان سے مٹائے نہیں جا سکتے۔
لالی زندہ ہے، کیونکہ اُس کی تدریس اُس کے شاگردوں کے اذہان میں ایک سایہ دار درخت کی مانند جڑ پکڑ چکی ہے۔”

اور پھر وہی صدا گونجی جو صرف کانوں سے نہیں، دل کے نہاں گوشوں سے سنی جاتی ہے۔ فنا تو دشمن ہوتا ہے، کیونکہ وہ ایک مقدس جنگ کا وارث نہیں، بلکہ مفاد سے بندھا ہوا ایک کرائے کا سپاہی ہوتا ہے۔۔ ُس کی موت کے بعد اگر کچھ باقی رہتا ہے تو فقط ایک لاش، ایک دھندلا نام، اور تاریخ کے ماتھے پر ایک بدنما دھبہ۔ مگر ایک جہدکار کی لاش کے سائے سے بھی نظریہ جنم لیتا ہے، جو تلوار کی طرح چمک کر کہتا ہے کہ بقاء کی جنگ میں فنا اختتام نہیں بلکہ ابتداء کا ایک لازوال باب ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔