بلوچ نسل کشی کیا ہے؟ ۔ جعفر قمبرانی

205

بلوچ نسل کشی کیا ہے؟

تحریر: جعفر قمبرانی
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان ایشیا کا دل ہے۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جو بہت سارے اہم ممالک کے عین وسط میں واقع قدرتی وسائل سے مالامال ایک مقناطیسی قوت رکھتی ہے۔ اس خطے کی اہمیت کو پرکھنا ہو تو تاریخ کے اوراق پلٹنے ہونگے کہ کس طرح سکندر اعظم جیسے عظیم فاتحین کو بھی راستہ دیا۔ کس طرح برطانوی سامراج کیلئے افغانستان تک پہنچنے میں بلوچستان ڈھال بن کر کھڑی رہی اور کیسے عرب و دیگر بیرونی حملہ آواروں سے سالہاسال جنگی طرز عمل اپناکر نبردآزما ہوا۔ یعنی ایک طرف بلوچستان کی اہمیت دو دوسری طرف بلوچ قوم کی بہادری جانبازی اور جوان مردی کی داستان اس خطے کی مٹی کی ہر ذرے سے ملتی ہے۔ جس طرح ماضی میں بلوچ نے مزحمت کرکے بیرونی حملہ آواروں کو اپنی آزادی کی راہ میں حائل ہونے نہیں دی ہیں، بالکل اسی طرح آج بھی بلوچ ایک بڑی فکر کے ساتھ ریاست پاکستان کی سفاکیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی قوت رکھتی ہے۔ سامراج کے سامنے ڈھٹ جانے اور اسے منہ کی کھانے پر مجبور کرنے سے پہلے اپنے اوپر ظلم و تعدی کی داستان مظلوم قوم کی ہر فرد کو معلوم ہونی چاہیئے تاکہ اس سفاکیت کو سمجھ کر ہر شخص اسکے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کریں۔

یہاں میں ریاست پاکستان کی جانب سے ہونے والے چند ایسے اقدامات کا ذکر کرتا ہوں جو ریاست پاکستان کے استحصالی و استعماریت کا برملہ ثبوت ہیں۔ یہ چند ایسے نقاط ہیں جو ظالم اور مظلوم کے درمیان فرق کرتے ہیں اور ایک عام شخص کو سمجھاتے ہیں کہ کون حاکم اور محکوم۔ کون ہے جو استحصال کرتا ہے اور کون ہے جو برسوں سے جاری اس ظلم کو سہہ رہی ہے۔

پس اگر بات کی جائے بلوچ نسل کشی کی تو یہ ریاست پاکستان کا اولین ترجیح و مقصد رہی ہے کہ بلوچستان کے عظیم اثاثوں یعنی نوجوانوں کو مختلف حربوں سے مار دھاڑ کر یا تو زندگی سے بے دخل کر دیا جاتا ہے یا تو نامعلوم اندھیرے کوٹھریوں میں ڈال کر ہمشیہ کیلئے روپوش کردیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ بلوچ نسل کشی صرف قتل و غارتگری کا نام نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچ کشی کے مختلف نوآبادیاتی طریقے استعمال میں لائے جاتے ہیں جن میں ٹارگٹ کلنگ، لاپتہ افراد، منشیات کا فروغ، بیماریوں کی پھیلاؤں، روڑ حادثات و دیگر اہم مسئلے شامل ہیں۔ آئیے چند ایسے نقاط کا وضاحت کرتے ہیں جو کہ ریاستی ظلم و زوراکی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو۔

اولین بات یہ کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچ تحریک سے جڑے ہر متحرک اور سرگرم رکن کو ریاستی اداروں نے اپنے جبر و ستم کا نشانہ بنانے میں کبھی دیر نہیں کی۔ یعنی ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف جس نے بھی منہ کھولا یا اسے غلط جان کر غم و غصے کا اظہار بھی کیا تو اسے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ہمیشہ کیلئے خاموش کیا گیا۔ بلوچستان میں ایسے افراد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہیں جن میں شھید شھزاد، ورنا نوروز خان، شھید حفیظ اور حالیہ واقعات میں تیرہ سالہ نعمت اللہ بلوچ، حبیب بلوچ سمیت تین ساتھیوں کی شھادت اور پرامن نوجوانوں پر شیلنگ اور ٹارگٹ کلنگ شامل ہیں۔ یاد رہے ریاستی دہشت گردی کی شروعات قلات کے پہلے جہد کار آغا عبدالکریم خان احمدزئی سے ہوئی تھی جو کہ ریاست پاکستان کی زبردستی الحاق کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان جیسے سینکڑوں مثالیں ہیں جو کہ ریاستی نوآبادیاتی نظام اور ظلم و جبر کی اہم مثال کے طور پیش کئے جاسکتے ہیں۔

مزید برآں، بلوچستان میں دیگر ریاستی ظلم و استہزاء کی طرح لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی ایک سنگین مسئلہ ھے۔ کہی دہائیوں سے بلوچ قوم پرست رہنماوں سمیت فکری و نظریاتی نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کرنا ریاست پاکستان کا شیوہ رہا ہے۔ بلوچستان میں اب تک ہزاروں افراد لاپتہ کئے گئے ہیں جن کو کئی سال گزرنے کے باوجود منظر عام پر نہیں لایا جاسکا۔ ان میں سے چند اہم مثالیں قلات سے سمیع اللہ لانگو (14 سال) آغا بابر (11 سال) زاکر مجید، سید اختر شاہ و حالیہ دنوں کماش واحد کمبر بلوچ، میر ناصر قمبرانی بلوچ، بیبرگ بلوچ سمیت خود ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ہے جو کہ لاپتہ افراد کیلئے ایک منظم آواز تھی۔

اسکے علاوہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں ہر اس عمل پر پابندی عائد کی جاتی ہے جس میں بلوچ قوم کی بھلائی اور بقاء کی راز چھپی ہو مگر مجال کہ منشیات فروشوں کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ بلوچستان میں منشیات کی فروغ کو روکھنے کیلئے ریاستی سرگرمیاں نا ہونے کے برابر ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 45 فیصد نوجوان منشیات کی جانب راغب ہیں جبکہ یہ تعداد مزہد بڑھتی جارہی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں نوجوانوں کا نشہ آوار چیزوں کا عادی ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ نوجوانوں جو کہ ہنر مند، تخلیق کار اور ہونہار ہیں، کو ضائع کرنے اور انکی صالاحیتوں کو حذف کرنے کیلئے منشیات کی فروغ میں ریاستی اداروں کا ایک اہم کردار ہے۔ اسکی ایک زندہ مثال بلوچستان کے شہر قلات میں دیاستی بالادستی میں قائم شراب کی دکان تھی جس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ایک جوان کو کئی جرمانے اور سلاخوں کے پیچھے رہہ کر سزا بھگتنی پڑی۔

جبکہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ برس 2024 میں کل 20300 روڑ حادثات ہوئے جن میں 471 افراد جانبحق اور لگ بھگ سترہ ہزار افراد زخمی و متاثر ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا روڑ حادثات ڈرائیور حضرات کی لاپروائی کی وجہ سے ہوتے ہیں؟ نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ تمام روڑ حادثات جو بلوچستان میں وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ ڈرائیور حضرات کی کاہلی کی وجہ سے ہو، بلکہ پنجاب اور بلوچستان میں روڑوں کی تقابلی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پنجاب میں سی پیک سیندک اور ریکوڈک کی وجہ سے موٹروے ایم 8 اور 9 وغیرہ بن رہے ہیں تو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں سیکٹری ایٹ کے سامنے آپ کو ایک سگنل لائٹ بھی نہیں ملتی۔ بلوچستان میں روڑوں کی مجموعی حالت انتہائی تشویشناک، خستہ حال اور ناقابل سفر ہیں جن پر چل کر بلوچستان کے غریب عوام گاڑیوں میں حادثات کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روڑ حادثات کو بھی ریاست پاکستان کی وہ جرم قرار دیا جاسکتا ہے جس کی پاداش میں اس نے ہمیشہ بلوچ نوجوانوں کی قتل و غارتگری کی ہے۔

یقیناً روڑ حادثات بھی بلوچ نسل کشی اور پاکستانی جرنیل مشرف کی وہ بات کو واضح کرتے ہیں جب انہوں نے کہا تھا کہ “بلوچوں کو وہاں سے ماریں گے جہاں سے انہیں گماں بھی نہیں ہوگا۔” یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ھے؟

بلوچستان میں نسل کشی کے دیگر حربوں کی طرح موزی امراض کا پھیلاؤں اور بروقت عدم علاج اور سہولیات نا ہونے کی وجہ سے کہی افراد موت کی اغوش میں چلے جاتے ہیں یا تو مفلوج و معزور ہوکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی صلاحیتوں کو بلوچ قوم کیلئے استعمال میں لانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ان امراض میں کینسر، ٹی بی، شوگر و دیگر موزی امراض شامل ہیں جن کی علاج کیلئے نا کوئی اچھی ہسپتال میسر ھے اور نا ہی کوئی اچھی ڈاکٹر اور ماہر امراض۔

سوال پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان میں ڈاکٹروں کی کمی کا زمہ دار حکومت کیسے ہوسکتی ہے۔؟ تو جناب جہاں نوجوانوں کو کلاس میں پڑھانے کے بجائے روڑوں پر گھسیٹا جائے، جہاں بلوچستان یونیورسٹی جیسے بڑے اداروں میں لیکچرارز کو انکی تنخواہیں تک نا دی جائیں، جہاں کتاب اسٹالز پر دھاوا بول کر نوجوانوں کو کتابوں سمیت زندان میں ڈال دیا جائے وہاں کون پڑھ سکتا ھے؟ بلوچ تو پھر بھی اس خطے میں شعور اجاگر کرنے کیلئے سر جھکانے کو اپنے لئے عار محسوس کرتی ہے۔
تاہم میڈیکل کالجز کی تحریری امتحانات سے لیکر نتائج اور طلبہ کی مختلف جامعات میں انتخاب ہونے کا پورا عمل دیکھا جائے تو سمجھ آجائے گی کہ بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ کتنی بڑی کلھواڑ ہورہی ہے اور بلوچستان کے ڈومیسائل پر کتنے پنجابی نوجوان بلوچستان کے نوجوانوں کے حقوق مار رہے ہیں۔

الغرض، بلوچستان میں ہسپتال ڈاکٹر اور میڈیکل طلبہ کے ساتھ زیادتیوں کی وجہ سے صحت کا شعبہ مکمل تباہ ہوچکی ہے جس سے بلوچستان میں ریاستی پالیسی بلوچ نسل کشی کے اثار صاف صاف نظر آتے ہیں۔

مزید دیکھا جائے تو بلوچ نسل کشی میں ایک خطرناک ہتھیار تعلیمی ذبوحالی اور بلوچ نوجوانوں کا زیاں ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم کا نظام بُری طرح متاثر ہے۔ کتابوں اور تعلیمی مواد کو مکمل طور پر غائب کر دینا، تعلیمی اداروں کی کمی، اور نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالنا جیسے اقدامات بلوچستان میں ریاستی جبر کا حصہ ہیں۔ رواں سال کئی دفعہ کہی واقعات میں، کتاب اسٹالز پر پابندیاں عائد کی گئی ہے اور تعلیمی اداروں کے کمزور ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ بلوچ نوجوانوں کا کتاب فروخت کرنے کی عمل کو جرم سمجھ کر انکو جیلوں میں ڈال دینا ریاستی بلوچ نسل کشی نہیں تو کیا ھے؟ اسکے علاوہ ریاستی ادارے بلوچستان کے نوجوانوں کو صرف پولیس یا لیویز جیسے محکموں میں چپراسی کی سطح پر محدود رکھنا اور بڑی پوسٹوں پر یا تو اپنے من پسند کاسہ لیسوں کو لانا یا باہر سے کسی بھی غیر کو ڈومیسائل تھما کر یہاں مسلط کرنا تاکہ ان کی صلاحیتوں کا استحصال کیا جا سکے جو پنجاب کے نوجوانوں سے حد درجہ بہادر، قابل اور ہونہار ہیں۔ اس طرح، بلوچستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو برباد کیا جا رہا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ تعلیمی نظام غیر معیاری ہونے کے باعث نوجوانوں کا مستقبل تاریکی میں ڈوب رہا ہے، اور اس طرح بلوچ کو ایک غیر معیاری زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی پیٹ اور ضرورتوں سے نکل کر قوم اور گلزمین کیلئے سوچنا چھوڑ دیں۔

اسکے علاوہ علاقائی تقسیم اور کھنچاؤ بھی ریاستی نوآبادیاتی پالیسیوں میں سے ایک اہم ہتھیار ہے جو بلوچستان میں کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔

یعنی ریاست نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لسانی، علاقائی، اور اقتصادی تعصب پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ بلوچستان میں مقامی سطح پر علاقائی بنیاد پر کھنچاؤ پیدا کیا گیا ہے تاکہ بلوچوں کو ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور تقسیم کا شکار کیا جا سکے۔ اس کے نتیجے میں، بلوچ عوام آپس میں شیر و شکر ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہو کر اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے۔ اسی طرح اقتصادی طور پر بلوچ کو لالچ دیکر چند سکھوں کے عوض اپنے ہی بلوچ بھائیوں کو مار دھاڑ کرنے کی ریاستی پالیسی بر سر پیکار ہے اور قوم ایک دوسرے کیلئے باعث قتل اور زوال بن رہی ہے۔ اس طرح کی علاقائی و اقتصادی تقسیم نے بلوچ قوم کے اتحاد کو کمزور کیا ہے اور اس کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی کمزوری نے اصل حقوق کی جدوجہد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

الغرض، یہ تمام اقدامات اور حکمت عملیاں اس بات کا غماز ہیں کہ ریاست پاکستان نے بلوچستان میں نہ صرف قدرتی وسائل کا استحصال کیا ہے بلکہ بلوچ قوم کو تقسیم کر کے ان کے حقوق کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ ان اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے بلوچوں کو شعور اور آگاہی سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں اور اپنے ہی سرزمین پر مکمل طور پر مفلوج و محروم رہ کر زندگی گزاریں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔