دہشتگردی اور انقلابی عمل
نبشتہ کار: زراگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
تاریخ انسانی میں ریاستیں ہمیشہ اس عمل سے خوفزدہ رہی ہیں جو ان کے تسلط کو چیلنج کرے، اور جب بھی کہیں کسی انقلابی تحریک نے جنم لیا، تو پھر ریاست نے اسے دبانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنائے۔ کسی بھی ریاست کا سب سے مؤثر ہتھیار یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی عوامی جدوجہد کو دہشت گردی کا نام دے کر اسے غیر قانونی اور غیر اخلاقی ثابت کرے، تاکہ عوام اس سے دور ہو جائیں اور وہ تحریک اپنی حمایت کھو بیٹھے۔ لیکن صرف پروپیگنڈے سے یہ ممکن نہیں ہوتا، اس لیے ریاست مختلف آپریشنز اور سخت گیر پالیسیوں کے ذریعے اس جدوجہد کو کچلنے کی کوشش کرتی ہے، جس کے نتیجے میں ظلم و بربریت کی نئی تاریخیں رقم کی جاتی ہیں۔
ریاست کا پہلا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بیانیہ تشکیل دیتی ہے۔ میڈیا، تعلیمی ادارے، مذہبی رہنما، اور حکومتی مشینری سب مل کر اس تحریک کو ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی، اور تشدد پسند تحریک کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ عناصر ان کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور اگر انہیں روکا نہ گیا تو ملک کا امن برباد ہو جائے گا۔ یہی بیانیہ تعلیمی نصاب میں شامل کر دیا جاتا ہے، اور نسل در نسل لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ جو بھی ریاستی طاقت کو چیلنج کرے، وہ دشمن ہے۔
جب یہ پروپیگنڈا مؤثر ہو جاتا ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد اس پر یقین کر لیتی ہے، تو ریاست اگلا قدم اٹھاتی ہے، یعنی فوجی آپریشن۔ اس آپریشن کے نام پر سب سے پہلے ان علاقوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جہاں انقلابی تحریکیں زیادہ فعال ہوتی ہیں۔ وہاں کرفیو نافذ کر دیا جاتا ہے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے بین الاقوامی مبصرین کے داخلے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ پھر فوجی کارروائیاں شروع ہوتی ہیں، جن میں بمباری سے لیکر گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں، اور قتل عام جیسے اقدامات شامل ہوتے ہیں۔
ویتنام جنگ میں امریکہ نے یہی کچھ کیا تھا۔ ویتنامی “جُہد” کو دہشت گرد قرار دیا گیا، اور پھر ان کے خلاف ایک خوفناک جنگ شروع کی گئی جس میں لاکھوں شہری مارے گئے، دیہاتوں کو جلا دیا گیا، اور پورے ملک کو تباہ کر دیا گیا۔ لیکن جب وقت گزرا اور ویتنامی عوام کامیاب ہوئے، تو دنیا نے مانا کہ یہ جنگ ایک قومی آزادی کی جنگ تھی، نہ کہ دہشت گردی۔
پاکستان میں بھی مختلف آپریشنز کے نام پر کئی علاقوں میں ریاستی جبر کی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ بلوچستان میں کئی دہائیوں سے چلنے والی مزاحمتی تحریک کو دبانے کے لیے بارہا آپریشن کیے گئے، ہزاروں افراد کو غائب کیا گیا، اور عوام کو خوف میں مبتلا رکھا گیا۔ ریاستی مشینری نے یہی بیانیہ دیا کہ یہ سب دہشت گرد ہیں، مگر جب ان مظالم پر سے پردہ ہٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل ظلم تو وہ ہے جو ریاست نے آپریشن کے نام پر کیا۔
الجزائر کی جنگِ آزادی ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک ریاست کسی بھی انقلابی عمل کو دہشت گردی کا نام دے کر اپنے استعماری تسلط کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ 1954 میں جب الجزائری عوام نے فرانس کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، تو فرانسیسی حکومت نے فوری طور پر اسے دہشت گردی قرار دے دیا۔ نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا، حالانکہ ان کا مقصد صرف اپنی آزادی حاصل کرنا تھا۔ فرانسیسی فوج نے الجزائر میں ایسے مظالم کیے جو آج بھی جنگی جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ قتل عام، جبری گمشدگیاں، ٹارچر سیلز، اجتماعی سزائیں، اور نیپام بموں کا استعمال، یہ سب کچھ “دہشت گردوں کے خلاف آپریشن” کے نام پر کیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے ہر احتجاج کو کچلنے کے لیے براہ راست گولیاں چلائیں، ہر انقلابی کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا، اور ہر آزادی پسند کو دشمن قرار دیا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ دراصل ایک آزادی کی جنگ تھی، اور آخرکار 1962 میں الجزائر کو آزادی ملی۔
پاکستان میں بلوچستان کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں۔ ریاست یہاں بھی یہی طریقہ استعمال کر رہی ہے کہ کسی بھی قوم پرست تحریک کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے۔ جب بلوچ نوجوان اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تو ریاستی ادارے انہیں اغوا کر کے لاپتہ کر دیتے ہیں، اور ان کے لاشے ویرانوں میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں متعدد فوجی آپریشن کیے جا چکے ہیں، اور ہر بار یہی بیانیہ دیا گیا کہ یہ “امن قائم کرنے کے لیے” کیے جا رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان آپریشنز کے دوران ہزاروں بے گناہ شہریوں کو مار دیا گیا، اور لاکھوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔
1948 میں پہلا آپریشن بلوچستان کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے کیا گیا۔ خان آف قلات نے آزادی برقرار رکھنے کی کوشش کی، لیکن پاکستان نے زبردستی بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ تب سے لے کر آج تک بلوچستان میں مسلسل ریاستی جبر جاری ہے۔ 1958 میں نواب نوروز خان کو ان کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے سزائے موت دے دی گئی۔ انہیں قرآن کا جھانسا دے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا گیا، اور پھر انہیں غداری کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔
1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں بلوچ شہری مارے گئے۔ یہ آپریشن درحقیقت بلوچ قوم پرستوں کے خلاف ایک کھلی جنگ تھی، جسے ریاست نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا نام دیا۔ اسی طرح ایک اور “جبر” مشرف دور میں ہوا، جب 2004 سے لے کر 2006 تک نواب اکبر بگٹی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ نواب بگٹی، جو کہ پاکستان کے ایک بااثر سیاستدان بھی تھے، کو دہشت گرد قرار دے کر ایک غار میں شہید کر دیا گیا۔
2009 میں بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن کیا گیا، جس کے دوران ہزاروں نوجوان جبری گمشدگیوں کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے کئی کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں ملیں، جن پر شدید تشدد کے نشانات تھے۔ ریاست نے ان قتل و غارت گری کو “قانون کی عمل داری” کا نام دیا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ ریاست خود دہشت گردی کر رہی تھی۔
اسی دوران بلوچستان میں گوادر کے عوام نے اپنے حقوق کے لیے پرامن احتجاج کیا، لیکن ان مظاہرین پر بھی گولیاں برسائی گئیں، انہیں گرفتار کیا گیا، اور ان کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔
ابھی ایک اور آپریشن کی تیاری زوروں پر ہے، اور اس دفعہ بھی ریاستی بیانیہ روایتی ہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کیا ہے اور انقلابی عمل کیا ہے؟ اگر دہشت گردی کا مطلب خوف اور بربادی پھیلانا ہے، تو پھر یہ آپریشنز جو بلوچستان میں کیے جا رہے ہیں، یہی اصل دہشت گردی ہیں ۔ جب ایک ریاست عوام پر گولیاں چلاتی ہے، انہیں غائب کرتی ہے، اور ان کے گھروں کو تباہ کرتی ہے، تو وہی سب سے بڑی دہشت گرد ہوتی ہے۔ انقلابی عمل وہ ہوتا ہے جو کسی بھی قوم یا مظلوم طبقے کے حقوق کی بحالی کے لیے کیا جائے۔ اگر الجزائر میں آزادی کے لیے لڑنے والے دہشت گرد نہیں تھے، تو بلوچستان میں حقوق کے لیے لڑنے والے کیسے دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟
اصل دہشت گردی وہ ہے جو ریاست آپریشنز کے نام پر کرتی ہے، جب وہ نہتے شہریوں کو غائب کرتی ہے، ان کے گھروں پر بمباری کرتی ہے، اور ان کے حق میں بولنے والوں کو غدار قرار دے کر قتل کر دیتی ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں، بلکہ ایک قوم کو مسلسل غلام رکھنے کی کوششیں ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔