بلوچستان میں زچہ و بچہ کی مشکلات – پری گل بلوچ

45

بلوچستان میں زچہ و بچہ کی مشکلات

تحریر: پری گل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مکران کے بلوچوں میں مشہور کراچی کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر قمر عباس نے مجھ سے کہا کہ یہاں کئی خواتین ایسی آئی ہیں جن کا میں نے بے اولادی کا علاج کیا لیکن بچے کی پیدائش کے لیے وہ سہولت کے پیش نظر اپنے علاقوں کا رخ کرتی ہیں کیونکہ کراچی میں رہائش ان کے لیے مسئلہ ہوتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہی خواتین خالی گود لیے میرے سامنے موجود ہوتی ہیں۔ پیدائش کے وقت ان کے بچے انتقال کر جاتے ہیں اور ان میں سے کئی دوبارہ کبھی ماں بھی نہیں بن سکتیں۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر ایسی خواتین بچوں کی پیدائش کے وقت تربت جیسے شہروں میں ڈاکٹروں کے پاس ہی جاتی ہیں لیکن بچے نہیں بچ پاتے اور بعض اوقات ماں بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ جب میں ان اموات کی وجہ پوچھتی ہوں تو لوگ اسے قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔ “یہاں کراچی میں ایسا ہو تو لوگ ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں ہسپتالوں میں توڑ پھوڑ شروع ہو جاتی ہے۔” میں کبھی کبھار جب اس کے متعلق سوچتی ہوں تو ذہن‌ میں سوال آتے ہیں وہاں پیدائش کے وقت مرنے والے بچے کو انسان نہیں سمجھا جاتا؟ یا لوگ سمجھتے ہیں کہ اس مرحلے میں مرنا ہی ہے اگر بچ گیا تو شکر ادا کریں ۔لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان جانوں کو بچایا جا سکتا تھا؟

نو مہینے کی تکالیف، زچگی کا موت سے گزر جانے والا درد، اور پھر خالی گود یا ایک ہونے والی ماں کی جوانی میں موت۔ بلوچستان میں رہنے والوں نے یقیناً اپنے خاندان میں ایسے کیسز دیکھے ہوں گے۔

بلوچستان میں ریاست کی طرف سے اغوا کیے جانے والے نوجوان، سڑکوں کی خراب حالت کے سبب ہونے والے حادثات، بیماریوں سے اموات، یا قدرتی آفات میں ناقص انتظامات کی وجہ سے جانوں کا ضیاع یہ سب سنگین مسائل ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک عورت کا مسئلہ معمولی نہ سمجھے جانے کے باوجود قسمت کا لکھا ضرور سمجھا جاتا ہے۔ زچگی کا مرحلہ خیر سے گزر گیا تو شکر ورنہ صبر۔ اس کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے؟

2016 میں، تربت جیسے بڑے شہر میں، میرے خاندان کی ایک خاتون کے پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر، میں اسپتال میں موجود تھی۔ تقریباً چھ، سات گھنٹے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت گزرنے کے باوجود پیدائش نہیں ہو رہی تھی۔ نرس ویکیوم مشین لے کر گئی جس کی آواز مجھے سنائی دی۔ کچھ دیر بعد، ڈاکٹر باہر آ کر کہنے لگیں: “آپریشن کرنا پڑے گا۔” یہ کہہ کر وہ چلی گئیں کہ “میری ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ لڑکی کے والد گاڑی تک ان کے پیچھے گئے اور درخواست کی کہ میری بیٹی کو اس حالت میں چھوڑ کر نہ جائیں جب تک دوسری ڈاکٹر نہیں آتی۔ لیکن ڈاکٹر نے جواب دیا “میرا روزہ تھا اور میں مزید نہیں رک سکتی۔”

اسی وقت نجی اسپتال کے لیے رقم اکٹھی کی گئی اور تقریباً ایک یا دو گھنٹوں میں آپریشن ہوا۔ میں نے جب نومولود بچی کو دیکھا تو اس کی کھوپڑی غیر معمولی محسوس ہوئی جس پر پیدائش کی تکلیف واضح تھی۔ قریبی اسپتال میں بچوں کے ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے کہا “سر پر دباؤ آیا ہے فوراً انتہائی نگہداشت میں رکھنا ہوگا۔” قریبی کسی اسپتال میں آئی سی یو نہیں تھا یا شاید آج بھی نہیں ہے۔ پھر ایک ہسپتال میں انکیوبیٹر (Incubator) کا سنا وہاں لے گئے لیکن جگہ نہ ہونے کے سبب بچی کو ہسپتال میں استعمال ہونے والے عام جھولے میں آکسیجن لگا دی گئی۔ دو دن بعد بچی فوت ہو گئی۔ ماں دوسرے اسپتال میں تھی جسے شاید ایک ہفتے بعد بتایا گیا کہ اس کی نومولود بچی نہیں رہی۔

اس موقع پر اسے تسلی دینے کے لیے دوسرے لوگوں کے واقعات سنائے جا رہے تھے اور شکر ادا کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ میں مصیبت میں صبر کی قائل ہوں لیکن اس نظام پر مجھے بہت غصہ آ رہا تھا. والد کا گاڑی تک جا کر ڈاکٹر سے منتیں کرنا اور بہت سی ایسی چیزیں جو اب یادداشت میں نہیں رہیں لیکن ایک بات میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اسی اسپتال میں چند دن بعد میرا دوبارہ جانا ہوا۔ نرس نے مجھ سے ماں اور بچے کا حال پوچھا۔ میں نے بتایا کہ بچی کی کھوپڑی پر زور آیا تھا جس کی وجہ سے وہ فوت ہو گئی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ویکیوم مشین کی وجہ سے ہوا ہو۔ نرس فوراً اسپتال کے ویکیوم کو بے قصور ثابت کرنے کے لیے کہنے لگی، “وہ تو خراب ہے کام ہی نہیں کرتی۔” مجھے جھٹکا لگا کہ یہ لوگ خراب ویکیوم مشین کے ساتھ ڈرامے کر رہے تھے؟ پھر میں نے باقی عملے سے بھی پوچھا، تو پتہ چلا کہ یہ مشین تین مہینے سے خراب تھی۔ (چونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کی ماہواری یا بچے کی پیدائش پر اس کی تکالیف کا کھلے عام ذکر نہیں ہوتا میرے ہاتھ بھی کئی الفاظ لکھنے سے رک جاتے ہیں) اس نومولود کے سر پر جو پیدائش کی تکلیف واضح تھی وہ کوئی بھی سمجھدار انسان دیکھ سکتا تھا کہہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے۔

یہ تو ایک شہر کا آنکھوں دیکھا واقعہ تھا۔ آس پاس کے دیہاتوں میں کیا حال ہوگا؟ کئی عورتیں زچگی کے درد کے دوران دس بارہ گھنٹوں کا سفر طے کر کے بڑے شہروں تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کچھ ایسی خواتین کو میں جانتی ہوں جو راستے میں سیکیورٹی اہلکاروں کے کئی گھنٹوں تک گاڑی روکنے کی وجہ سے دم توڑ گئیں۔ میں نے کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ایک ایسی عورت دیکھی تھی جس کے دو جڑواں بچوں میں ایک کی پیدائش نوشکی میں ہوئی تھی اور دوسری کی پیدائش میں مشکل کے سبب کوئٹہ لانا پڑا تھا۔ کوئٹہ کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز کی بجائے دائیوں کے ہاتھ بچوں کی پیدائش ہوتی ہے/

آٹھ مارچ کے دن دنیا بھر میں عورتیں اپنے نئے نئے پیدا کرده مسائل کو لے کر آواز اٹھاتی ہیں، کسی کو کھانا گرم کرنے کا مسئلہ ہے کسی کو موزے ڈھونڈنے کا اور ہماری عورت نئی زندگی کے ابتدائی مرحلے میں ہی مشکلات کا شکار ہے، جس پر بس ایک آہ ہی بھر سکتی ہے۔

بد انتظامی، بے حسی اور غربت کے سبب مشکلات کا حل نکالنے کی کوشش تو کرنی ہی چاہیے لیکن حاملہ عورت کی ذہنی و جسمانی نگہداشت پر بھی توجہ دینی ضروری ہے۔ اس دوران عورت اپنی کمزور ترین حالت میں ہوتی ہے اور بہت حساس بھی ہوجاتی ہے۔ زچگی کے مشکل مرحلے تک اس کا خیال رکھنا اور پیدائش سے قبل اسے محفوظ ہاتھوں تک پہنچانا اس کا حق ہے۔ یہ اس کی اور ہونے والے بچے کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔