شہید آغا محمود: ایک فکر، ایک تحریک، ایک عہد
تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہید آغا محمود جان کی چودھویں برسی پر، میں ان کی فکر، جدوجہد اور قربانی کو لال سلام پیش کرتے ہوئے اپنے قلم کو ان الفاظ کی حرمت میں جھکاتا ہوں۔ وہ الفاظ، جو صرف لہو کی روشنائی سے لکھے جا سکتے ہیں، اور وہ خیالات، جو تاریخ کے سینے میں سچائی کی طرح گونجتے ہیں، آج بھی ہماری زمین کی خوشبو میں زندہ ہیں۔آغا محمود جان کا کہنا تھا کہ “قومیں کبھی بھی خاموشی اور خوف کے سائے میں آزاد نہیں ہوتیں، آزادی کے لیے قربانی اور مزاحمت لازمی ہے۔” یہ محض الفاظ نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط نوآبادیاتی جبر اور ریاستی استبدادکے خلاف زمین کے سینے میں مدفون شہداء کی ارمانیں، زنجیروں میں جکڑے خوابوں اور لال آنکھوں میں بسی امیدوں کا نوحہ ہے۔ جب زمین کی خوشبو روح میں اتر جائے، تو پھر انسان کے دل میں غلامی کا خوف مر جاتا ہے اور وہ اپنے لہو سے آزادی کی داستان لکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا محمود جان نے کہاتھا: “اگر تم نے آزادی کی روح،اور غلامی کی ذلت اور زنجیروں کا دردمحسوس کیاہے، تو پھر تمہیں اس کے لیے مر مٹنے سے خوف نہیں آئے گا۔”
ہم آج تاریخ کے اُس موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں خاموشی بھی جرم بن چکی ہے۔ ظلم اور جبر کے خلاف زبان نہ کھولنا، جبری گمشدگیوں کی آواز نہ بننا، اور آزادی و حق کی گواہی نہ دینا، ایک اجتماعی غداری کے مترادف ہے۔ آغا محمود جان نے یہی صدا دی تھی کہ “ہم تاریخ کے اس موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں خاموشی بھی جرم ہے۔”
یہ الفاظ ہمارے عہد کے لیے نہ صرف مشعلِ راہ ہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی للکار بھی ہیں۔ قومیں ہمیشہ قربانیوں سے بنتی ہیں، مزاحمت کی آگ میں جل کر کندن بنتی ہیں، اور پھر آزادی کا سورج ان کی جدوجہد کے افق سے طلوع ہوتا ہے۔آج اگر ہم واقعی اپنی زمین کی خوشبو محسوس کر چکے ہیں، تو پھر خاموش رہنا، ظلم سہنا، اور سچائی سے منہ موڑنا خود اپنے وجود سے غداری ہوگی۔ آغا محمود جان نے ہمیں مزاحمت کا جو سبق دیا، وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو چکا ہے۔ اب فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم اس زمین کے وفادار سپاہی بنتے ہیں یا خاموش تماشائی۔
بلوچ قومی تحریک کی تاریخ میں کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی موجودگی کے باوجود بھی خاموشی کا استعارہ بن کر رہتی ہیں، لیکن ان کی فکر، ان کی تعلیمات اور ان کا فلسفہ نسلوں کے شعور میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ آغا محمود جان بلوچ بھی انہی بے مثال شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے نہ صرف بلوچ قومی تحریک کے فکری و نظریاتی بنیادوں کو مضبوط کیا بلکہ اپنی انقلابی دانش اور بے لوث جدوجہد سے قوم دوستی کی نئی روح پھونکی۔
آغا محمود جان کا سیاسی سفر(اسی)کے دہائی میں بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن سے شروع ہوتاہے،، لیکن ان کے نظریاتی شعور، فکری گہرائی اور دانشورانہ بصیرت نے انہیں حق توار سٹڈی سرکل کا مرکزی ستون بنا دیا۔ وہ بابا خیر بخش مری کے فکری جانشین تھے اور بلوچ مزاحمتی تحریک کے فلسفیانہ معماروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی گفتگو میں بابا مری کی عاجزی، شہیدغفار لانگو کی جرات، شہید بالاچ مری کی بصیرت اور شہید غلام محمد اور شہید امیر بخش سگار کی قربانی کا عکس نظر آتا تھا۔
آغا محمود جان کی سب سے بڑی طاقت ان کا فکری شعور اور فلسفہ آجوئی تھا۔ وہ ایک ایسے زانت کار تھے، جن کے الفاظ نہ صرف نوجوانوں کے دل و دماغ میں انقلاب کی چنگاری پیدا کرتے تھے بلکہ انہیں قومی شعور، آزادی اور مزاحمت کے فلسفے سے بھی روشناس کراتے تھے۔ وہ کہتے تھے:
“بلوچ قومی آزادی کا سفر مسلح جدوجہد کے ساتھ ایک نظریاتی و سیاسی شعورکی طاقت سے جیتا جا سکتا ہے۔ جب ایک قوم فکری طور پر باشعور ہو وہ زیادہ دیر تک لڑ سکتاہے، اورغلامی کی زنجیروں کوصرف منطقی ردعمل سے توڑا جاسکتاہے۔”
آغا محمود جان بلوچ کا یہ قول کہ “ایک نظریاتی انقلابی بننے کے لیے جذباتی اور وقتی ردعمل کے بجائے شعوری پختگی ضروری ہے تاکہ ریاستی تشدد کا دیرپا مقابلہ کیا جا سکے اوردفاعی پوزیشن میں رہنے کے ساتھ دشمن کو اس نہج پر لایا جائے کہ وہ اپنی قبضے سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو”
آغا محمود جان کی یہ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ حقیقی انقلابی وہ نہیں ہوتا جو وقتی یا سطعی جذباتیت کے سہارے بندوق اٹھا لے، بلکہ وہ ہوتا ہے جو شعور، حکمت اور فکری بصیرت کے ساتھ قابض کے استعماری اور متشددانہ نظام کو شکست دے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ریاستی طاقت اور تشدد کا مقابلہ بندوق کے ساتھ بلکہ ایک فکری اور نظریاتی جنگ کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔
آغا محمود جان کے نزدیک، ایک انقلابی کو سب سے پہلے اپنی آزادی، جغرافیہ، تاریخ، زبان، ثقافت اور قومی شناخت کا ادراک حاصل کرنا چاہیے۔ جب ایک انقلابی اپنی جدوجہد کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھ لیتا ہے، تو پھر وہ دشمن کی چالوں اور فریب کا شکار نہیں بنتا، بلکہ دشمن کو ایسی حکمتِ عملی کے جال میں پھنساتا ہے جہاں وہ خود اپنی ناکامی کا اعتراف کرے اور اپنی قبضہ سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو جائے۔
آغا محمود جان نے بلوچ نوجوانوں کو یہ درس دیا کہ بندوق چلانے کے ساتھ قلم اٹھاؤ، تاریخ کو پڑھو، اپنی شناخت کو سمجھو، اور اپنی جدوجہد کو شعور کی طاقت سے مزین کرو۔ کیونکہ بندوق صرف ایک موثر زریعہ ہے،لیکن جدوجہد ہمیشہ کثیر الجہتی جدوجہد سے فتح میں بدلتی ہے، آج اگر بلوچ تحریک میں ہزاروں نوجوان فکری طور پر بیدار ہو کر اپنی شناخت اور قومی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، تو یہ شہید آغا محمود جان جیسے عظیم دانشوروں کی فکر کا نتیجہ ہے۔ وہ زندہ ہیں، اپنی فکر، اپنی تعلیمات اور اپنے فلسفے میں۔
آغا محمود جان کا سب سے بڑا علمی و فکری محاذ “حق توار سٹڈی سرکل” تھا۔ یہ سرکل بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک فکری درسگاہ تھی۔
بابا خیر بخش مری نے افغانستان سے واپسی کے بعد ایک غیر رسمی فکری محفل کا آغاز کیا، جو بعد ازاں “بلوچ حق توار” کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ اسٹڈی سرکل نہ تو کسی سیاسی جماعت کی شکل میں تھا اور نہ ہی کسی تنظیمی ڈھانچے کے تابع، بلکہ یہ ایک فکری نشست تھی جہاں نواب خیر بخش مری اور ان کے ساتھی دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں اور نظریاتی افکار پر بحث و مباحثہ کرتے۔
آغا محمود احمد زئی، اس نشست کے نہ صرف اہم شرکاء میں سے تھے، بلکہ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ حق توار محض ایک غیر رسمی نشست نہیں تھی، بلکہ یہ نوجوانوں کی فکری تربیت اور شعور کی بیداری کا ایک ذریعہ تھا۔ یہاں کتابوں سے منتخب موضوعات پر بحث کی جاتی، اور بابا مری خود سوالات کرتے اور سوالات کے جوابات بھی لیتے۔ اس مکالماتی فضا میں نہ صرف بلوچ قومی مسئلے پر گفتگو ہوتی بلکہ دنیا بھر کی مزاحمتی تحریکوں اور مارکسی، لیننسٹ اور انقلابی افکار پر بھی تبادلہ خیال کیا جاتا۔
آغا محمود کا ماننا تھا کہ بابا مری نے سیاسی حکمت عملی کے تحت اس دیوان کو زیر زمین رکھا تاکہ یہ ریاستی جبر اور سیاسی سازشوں سے محفوظ رہ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ حق توار نے کسی سیاسی پارٹی سے زیادہ نظریاتی اثر و رسوخ حاصل کیا۔ آغا محمود جان اس سرکل کے بارے میں کہاکرتے تھے کہ بابا مری کا فکری انداز، سوالات اور مکالمے کا طریقہ کار بلوچ نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک مستقل انقلابی سوچ پیدا کرتا تھا، جو محض وقتی نہیں بلکہ نسلوں تک منتقل ہونے والا فکری ورثہ بن گیا۔
۔آغا محمود جان، حق توار سٹڈی سرکل کا صرف ایک شریک نہیں بلکہ فکری ستون تھے۔ ان کی گفتگو میں ایسا وقار، گہرائی اور تاریخی شعور تھا کہ سننے والا خود کو بلوچ قومی تحریک کے فکری معماروں کے درمیان محسوس کرتا۔ جب وہ بولتے تو یوں لگتا جیسے بابا مری کی روح ان کے الفاظ میں سانس لے رہی ہو۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ، غلامی کے خلاف مزاحمت، قومی آزادی کی تڑپ اور بلوچ شناخت کی جڑوں سے جڑا ہوا ہوتا۔ محمود جان کا علم صرف کتابوں تک محدود نہ تھا، بلکہ یہ زمین، تاریخ اور جدوجہد کے لہو سے نکلا ہوا سچ تھا، جسے وہ اپنے نرم لہجے اور تیز فکر کے ساتھ بیان کرتے۔ ان کی شخصیت اس بات کی علامت تھی کہ فکر اگر شعور بن جائے، اور شعور اگر عمل کا حصہ بن جائے، تو تاریخ کے دھارے کو موڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔
آغا محمود جان بابا مری کاجانشین اور ان کے نظریات کا امین تھے۔، ان میں بابا مری کی عاجزی، خاکساری، فکری بصیرت اور مزاحمتی فکر کا گہرا عکس تھا۔ اس نے کھبی اپنے مقام اور اثر و رسوخ کا نمائش نہیں کیا، وہ بابا مری جیسے سادہ زندگی گزارنے کے قائل تھے
14 مارچ 2011، وہ المناک دن جب آغا محمود جان بلوچ کو ریاستی اداروں نے شہید کرکے بظاہرخاموش کر دیا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ نظریات کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ آغا محمود جان کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔ ان کی فکری تعلیمات آج بھی ہر اس بلوچ نوجوان کے دل میں زندہ ہیں جو اپنی سرزمین کی آزادی اور قومی وقار کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
آغا محمود جان کا نام آج بھی بلوچ قومی تحریک میں ایک فکری رہنما کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ان چند شخصیات میں سے تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی شہرت اور عہدوں سے دور رہ کر بلوچ قوم کی راہنمائی کی۔ وہ کہتے تھے: “جو لوگ قوم کی آزادی کے لیے لڑتے ہیں، انہیں ناموں اور شہرت کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم گمنامی میں رہ کربلوچ کاز کو زیادہ ایندھن دے سکتے ہیں۔
آغا محمود جان بلوچ کی شخصیت صرف ایک انقلابی دانشور کی نہیں، بلکہ ایک فلسفی، معلم اور قومی رہنما کی ہے۔ ان کا فلسفہ، ان کی تعلیمات اور ان کی قربانی بلوچ قومی تحریک کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ ایک فرد نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہیں، جو آج بھی ہزاروں بلوچ نوجوانوں کے دل و دماغ میں زندہ ہے۔
شہید آغا محمود جان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ وہ بلوچ قومی تحریک کے اس عظیم قافلے کا حصہ ہیں، جس نے تاریخ میں اپنے نام نہیں، بلکہ اپنی قربانی اور جدوجہد سے امر ہونے کا راستہ چنا۔ ان کی یاد، ان کی فکر اور ان کی جدوجہد، بلوچ قومی شعور کا ہمیشہ حصہ رہے گی
۔
بلوچ سرزمین نے ہمیشہ ایسے سپوت جنم دیے ہیں، جنہوں نے اپنی مٹی کی محبت میں خود کو فنا کیا۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں جذبے لہو سے عبارت ہوتے ہیں اور سوچیں آزادی کی لو میں جلتی ہیں۔ انہی جاں نثاروں میں ایک نام آغا محمود کا ہے، جو نہ صرف بلوچ قومی تحریک کے نظریاتی معمار تھے بلکہ فکری، سیاسی اور انقلابی میدان میں ایک ایسا چراغ تھے جس کی روشنی نے ہزاروں ذہنوں کو منور کیا۔
آغا محمود کی شخصیت کسی عام سیاسی رہنما کی مانند نہیں تھی، بلکہ وہ ایک چلتا پھرتا دانشگاہ تھے، جنہوں نے اپنے، فکر، تعلیمات اور کردار سے بلوچ نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا اور انہیں اپنی تاریخ، زبان اور قومی شناخت کی گہرائیوں سے روشناس کرایا۔ وہ ان دانشوروں میں سے نہیں تھے جو ریاستی تمغوں اور ایوارڈز کی ہوس میں اپنی علمی بصیرت بیچ دیتے ہیں، بلکہ وہ ان چند نایاب فکری سپاہیوں میں سے تھے جنہوں نے سچائی اور مزاحمت کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔
آغا محمود نے بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں وہ کردار ادا کیا جو عام طور پر ایک انقلابی فلسفی کا ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف سیاسی عمل کا حصہ تھے بلکہ ایک نظریاتی استاد کی حیثیت سے ہزاروں نوجوانوں کی ذہن سازی کی۔ ان کے خیالات نے بلوچ نوجوانوں میں قومی شعور بیدار کیا اور انہیں اپنی تاریخ اور قومی تشخص کا محافظ بنایا۔ان کی فکر کا مرکز قومی آزادی اور بلوچ وحدت تھی۔ انہوں نے ہمیشہ قبائلی جاگیردارانہ خانی ذہنیت، سرداری نظام اور ریاستی جبر کی مخالفت کی۔
آغا محمود کی شہادت محض ایک فرد کی موت نہیں تھی، بلکہ یہ ان کے نظریات کی فتح تھی۔ وہ جانتے تھے کہ جس راہ پر وہ چل رہے ہیں، اس کا انجام موت ہی ہے، مگر ان کا ایمان تھا کہ موت صرف جسم کی ہوتی ہے، فکر اور نظریہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔انہوں نے اپنی جان دے کر بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں وہ آگ بھڑکا دی جسے وقت کا کوئی طوفان بجھا نہیں سکتا۔ وہ آج بھی زندہ ہیں، اپنی، خیالات اور تربیت یافتہ ذہنوں میں۔ آج بھی جب بلوچ نوجوان اپنی قومی آزادی کی بات کرتے ہیں، تو ان کے الفاظ میں آغا محمود کی گونج سنائی دیتی ہے۔
آغا محمود کی فکری گہرائی اور فلسفیانہ بصیرت انہیں عام سیاسی کارکنوں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ سیاست کو اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے ایک فکری و انقلابی عمل سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک آزادی صرف زمین کی نہیں، بلکہ یہ ذہنی، فکری اور ثقافتی آزادی کا عمل بھی ہے۔
آغا محمود کی تدفین قلات کے شاہی قبرستان میں ہوئی، جہاں ان کے خاندان کے سینکڑوں افراد دفن ہیں۔ مگر آغا محمود کا مقام ان سے مختلف ہے۔ وہ کسی روایتی خان یا سردار کی طرح نہیں جئے، بلکہ انہوں نے عام بلوچ کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھا اور ان کے حقوق کے لیے اپنی آخری سانس تک جدوجہد کی۔وہ بلوچ قومی تحریک کے ایک فکری رہنما اور ایک تھنک ٹینک تھے، جن کی سوچ آج بھی زندہ ہے اور نوجوانوں کو جدوجہد کا راستہ دکھا رہی ہے۔
محمود جان کی زندگی اور شہادت ایک فلسفیانہ استعارہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے، جو آزادی کے مفہوم کو نہ صرف ایک سیاسی تصور بلکہ ایک ذاتی قربانی کے عظیم تر عمل میں بدل دیتی ہے۔ وہ ایک ایسے قومی جہد کار تھے جنہوں نے اپنی ذات کو غلامی کے شعلوں میں بھسم کر قومی آزادی کی راہ ہموار کی۔ ان کی جدوجہد کا مقصد فرد کی نہیں، بلکہ قوم کی آزادی تھا، اور یہی فلسفہ انہیں اپنے وقت کے سیاسی منظرنامے سے ممتاز کرتا ہے۔
محمود جان نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ذاتی تشہیر کی آرزو نہیں کی۔ ان کی جدوجہد میں ایک بلند مقصد کی جستجو تھی، جس میں خود کو نذر کر کے قوم کی آزادی کی مشعل جلانا تھا۔ اس کا فلسفہ تھا کہ قومی آزادی کی قیمت فرد کی زندگی سے کہیں بڑھ کر ہے، اور اسی لیے وہ اپنی ذات کو ایک وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس عظیم مقصد کو آگے بڑھاتے رہے۔
شہادت نے ان کی نظریاتی جدوجہد کو ایک نئی معانی دی۔ ان کی قربانی اس بات کی علامت بن گئی کہ آزادی کی جدو جہد میں ہمیں اپنی ذات کے مفادات سے بالا تر ہو کر صرف اس اجتماعی آزادی کے خواب کو حقیقت بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جو ہر فرد کے دل میں بستی ہے۔ وہ ایک نظریہ ساز نہ تھے، بلکہ ایک عمل میں تبدیل ہونے والے انسان تھے، جنہوں نے اپنی قربانی سے ثابت کر دیا کہ حقیقی آزادی وہ ہے جس میں فرد اپنی زندگی کو قوم کی تقدیر کے لیے وقف کر دے۔ان کی قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ آزادی خون مانگتی ہے، مگر اس خون سے جو نظریہ پروان چڑھتا ہے، وہ کبھی مرتا نہیں۔
آغا محمود کا مطالعہ وسیع تھا، ان کی فکر کا دائرہ قلات کے پہاڑوں سے لے کر کیوبا، ویتنام، روس، چین اور ہندوستان کے انقلابی میدانوں تک پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے مارکس، لینن، ہو چی منہ، چی گویرا، فیڈل کاسترو، سبھاش چندر بوس، بابا خیر بخش مری اور کم ال سنگ جیسے انقلابی رہنماؤں کے نظریات کو اپنی جدوجہد کا فکری ستون بنایا۔
آغا محمود کا یہ یقین تھا کہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہدایک غیر مہذب اور غیر انسانی نظام کے خلاف مزاحمت کا حصہ ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ بلوچ قوم کی آزادی کا خواب اسی وقت حقیقت بن سکتا ہے جب ہم تاریخ میں انقلابی تحریکوں کی کامیابیوں اور شکستوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں۔
آغا محمود چی گویرا اور فیڈل کاسترو کے کیوبا انقلاب سے متاثر تھے، جہاں چند نوجوان انقلابیوں نے سامراجی طاقتوں کے خلاف گوریلا جنگ لڑی اور ایک غیر منصفانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ آغا محمود سمجھتے تھے کہ بلوچ تحریک میں بھی یہی جذبہ، یہی قربانی اور یہی انقلابی حکمتِ عملی درکار ہے۔ویتنام کے ہو چی منہ کی قیادت میں سامراجی طاقتوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ، آغا محمود کے فکری ذخیرے میں ایک اہم باب تھی۔ ہو چی منہ نے نہ صرف فوجی مزاحمت کی قیادت کی، بلکہ عوام کے شعور کو بیدار کیا اور ثقافتی و فکری محاذ پر بھی سامراجی تسلط کو چیلنج کیا۔
آغا محمود نے بابا خیر بخش مری کی فکری تعلیمات کو بلوچ قومی تحریک کی بنیاد بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بابا مری نے کہا تھا:
“ہمارے راستے پہ چلنے والوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جائے گا، یا تو ہم آزادی حاصل کریں گے یا پھر شہید ہوں گے۔”
یہی وہ نظریہ تھا جسے آغا محمود نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور آخری سانس تک بلوچ قومی کاز سے وفادار رہے۔زندگی اور موت کی کشمکش میں اصل فتح اس روح کو حاصل ہوتی ہے جو اپنی ذات کی حدوں سے نکل کر اجتماعی شعور کے ابدی سفر میں گم ہو جائے۔ شہید آغا محمود خان احمد زئی نے اسی فلسفے کو عملی جامہ پہنایا۔ اگر زندگی کا مقصد محض آسائشوں اور راحتوں کا حصول ہوتا تو وہ اپنے شاہی محل میں آرام سے رہتے اور وقت کی دھوپ چھاؤں سے محفوظ رہتے۔ لیکن انہوں نے اپنی روح کو ان زنجیروں سے آزاد کیا اور سچائی کے سفر میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ انسان کی بقا اس کے جسمانی وجود میں نہیں بلکہ اس کے فکر، نظریے اور قربانی میں پنہاں ہے۔
وہ شہزادہ جو تخت و تاج چھوڑ کر گلی کوچوں میں اپنے لوگوں کے دکھ بانٹنے نکل پڑا، جس نے بندوق کے دھانے پر کھڑے ہو کر اپنی قوم کے خوابوں کی حفاظت کی۔ آغا محمود خان احمد زئی کا لہو اس دھرتی کے سنگریزوں میں جذب ہو کر آج بھی فضا میں گونجتا ہے۔ وہ لہو جو چی گویرا کے بدن سے بولیویا کے جنگلوں میں بہا، وہی خون بلوچستان کے دشت و پہاڑ میں بہا۔ وہی خواب، وہی تڑپ، وہی جنون! فرق صرف اتنا ہے کہ دنیا چی گویرا کو جانتی ہے، مگر آغا محمود کی کہانی ابھی تاریخ کے اوراق میں چھپی ہوئی ہے۔ مگر خون کی خوشبو کب چھپتی ہے؟ یہ خوشبو آج بھی بلوچ نوجوانوں کے دلوں میں انقلابی دھڑکن بن کر زندہ ہے، اور رہتی دنیا تک زندہ رہے گی۔
ان کی شہادت محض ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک فکر اور نظریے کی جیت ہے۔ آج بلوچ نوجوان جب اپنی شناخت، اپنی زبان اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، تو ان کے شعور میں آغا محمود کی آواز گونجتی ہے:
“میری موت میرے نظریے کی جیت ہے۔ میری لاش زمین پر گر سکتی ہے، لیکن میری فکر ہزاروں ذہنوں میں زندہ رہے گی۔”
لال سلام شہید حق توار
آغا محمود! تم زندہ ہو، ہمارے شعور میں، ہماری تحریروں میں، اور ہماری جدوجہد میں!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔