بارکھان سے جبری لاپتہ ہونے والے افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔ لواحقین کا پریس کانفرنس

205

بارکھان کے رہائشی مسعود اور دیگر نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما گل زادی کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ بارکھان سے ہمارے خاندان کے آٹھ افراد کو جبری گمشدہ کیا گیا ہے، ان کو فوری بازیاب کیا جائے، بصورت دیگر احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے جس سے بلوچستان میں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں ایک مسلسل غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں کب، کہاں، کون، کس وقت جبری گمشدگی کا شکار بنایا جائے، یہی ازیت ناک کیفیت بلوچستان بھر کے عوام کو سامنا ہے۔ حال ہی میں بارکھان سے درجنوں افراد جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے ہیں۔
بارکھان شہر اور ملحقہ علاقہ بغاؤ سے ایک ہی خاندان کے درجنوں افراد کو فروری اور رواں ماہ جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔ ان میں ہمارے خاندان کے آٹھ لوگوں کو جبری گمشدہ کیا گیا ہے۔ ان میں اکثریتی تعداد بوڑھے بزرگوں کی ہے۔ جبری گمشدہ افراد کی شناخت میں ساٹھ سالہ بزرگ امام بخش، حاجی احمد بخش جبکہ دو سگے بھائی غلام فرید اور غلام رسول کھیتران سمیت دیگر جبری گمشدہ افراد میں عبداللہ ،محمد طاہر، محمد اکبر اور نصیب اللہ ولد نیک محمد ہیں۔ ریاستی اداروں نے ہمارے خاندان کو کافی عرصے سے انتقامی کاروائیوں سے مسلسل اذیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہاکہ مزید یہ کہ جب ہم نے کوئٹہ پریس کلب کے حکام سے پریس کانفرنس کے لیے وقت لیا۔ ہمارے پاس اسکی رسید بھی ہے۔ اس کے چند گھنٹے بعد ہی پریس کلب کے حکام نے فون کر کے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے منع کیا ہے اس لیے اپ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس نہیں کر سکتے۔ یہ عمل غیر قانونی اور سفاکانہ ہے چونکہ پریس کلب عوامی ادارہ ہے اور ہم پہ اس کے دروازے بھی بند کیے گئے ہیں تاکہ ہماری آواز کو دبایا جائے۔

انکا کہنا تھاکہ ہماری فیملی کے آٹھ افراد کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا گیا اور ہمارے خاندان کو ایک فرد کی وجہ سے اذیت نہ دی جائے۔ ہم اس سے پہلے بھی بات واضح کر چکے ہیں کہ ہمارے خاندان کا ڈاکٹر محمد ابرہیم ولد حاجی نظام دین سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گیا ہے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان افراد کو جلد سے جلد منظر عام پر لایا جائے۔ اگر ہمارے پیاروں نے کوئی جرم کیا ہے یا کوئی اس طرح کی کسی کاروائی میں ملوث ہیں تو انہیں ثبوت کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے لیکن کسی شخص کو اس طرح سے گمشدہ کرنا کسی بھی آئین اور قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ جو تمام افراد جن کو 19 فروری اور 8 مارچ 2025 کو ہمارے گھر سے اٹھا کر لاپتا کر دیا گیا۔ انہیں جلد سے جلد بازیاب کیا جائے۔ ہم ریاستی اداروں خاص کر کمانڈنٹ کوہلو کرنل بارکھان سے اپیل کرتے ہیں کہ اگر ہمارے پیاروں کا کوئی قصور ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، اگر ان کا کوئی قصور نہیں ہے تو انہیں باحفاظت رہا کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پرامن شہری ہیں اور ہم نہ کبھی کسی تخریب کاری میں ملوث رہے نہ ائندہ ہوں گے، نہ ہمارا کسی تنظیم یا گروہ سے کوئی تعلق ہے۔

مزید کہاکہ ہمارے خاندان کے بزرگ اور نوجوان اٹھائے گئے ہیں انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم مجبور ہو کے پھر اپنی احتجاج ریکارڈ کروانے کی حق رکھتے ہیں۔ ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے ریاستی اور حکومتی حکام کو یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر دو دن کے اندر ہمارے پیاروں کو منظر عام پر نہیں لایا گیا تو ہم بارکھان شہر اور آس پاس کے شاہراہوں کو مکمل بند کریں گے۔ ہمارا احتجاج اور دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمارے لوگوں کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ ہم تمام انسانی حقوق کے تنظیموں اور تمام طبقہ ہائے زندگی سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری آواز بنے اور ہماری آواز کو حکومت تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اگر ریاست و حکومت ہماری آواز نہیں سنتے تو ہم بھرپور احتجاج کریں گے اور اپنے بلوچ قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں اور اس مشکل وقت میں ہماری آواز بنیں۔