بلوچستان میں ٹرین ‘جعفر ایکسپریس’ پر
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے قبضہ کے بعد مسافروں کی زندہ واپسی اور 33 مسلح افراد کی مارنے کے دعوے کے بہت سے حقائق ابھی سامنے نہیں آئے ہیں۔
پاکستانی وزیرِ اعظم اور حکام کے بیانات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جعفر ایکسپریس ریسکیو آپریشن کے دوران 339 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا جب کہ اس واقعے میں 21 مسافر اور چار سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔ لیکن مسافروں کی بازیابی سے متعلق حکام کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے اب تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
حکومتی دعوؤں کے برعکس ٹرین میں سوار بعض مسافروں کے مطابق انہیں واقعے کے پہلے روز فورسز نے بازیاب نہیں کرایا بلکہ وہ خود موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے یا پھر انہیں مسلح افراد نے جانے کی اجازت دی۔ ان افراد میں زیادہ تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی بتائی جاتی ہے۔
وائس آف امریکہ نے کئی تجزیہ کاروں سے بات کی جن کے مطابق حکومت نےاب تک اس واقعے کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی ہے جس کی وجہ سے حکومتی دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو پا رہی ہے۔
ٹرین مسافر سلمان علی کے مطابق فوج اور حکومت کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والوں کو ایک جانب بٹھایا گیا اور دیگر مسافروں کو پورا دن دوسر ی جانب میدان میں بٹھا کر رکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو شام کے وقت جانے کی اجازت دے دی گئی۔
سلمان علی نے دعویٰ کیا کہ کئی گھنٹے پیدل چلنے کے بعد انہیں ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے قریب فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کی چیک پوسٹ نظر آئی ۔
بیشتر مسافروں کے انٹرویوز سے پتا چلتا ہے کہ ٹرین پر حملے کے کافی دیر بعد بھی عسکریت پسندوں کا ٹرین اور اس کے مسافروں پر مکمل کنٹرول تھا اور انہوں نے خود خواتین، بچوں اور بزرگ مسافروں کو جانے کی اجازت دی تھی۔
واپس آنے والے مسافروں کی بات چیت سے یہ بھی لگتا ہے کہ منگل کی رات تک فوج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ انہیں ‘بازیاب’ کراتے۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے حقائق جاننے کی کوشش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ جہاں مختلف میڈیا ٹیموں نے مسافروں کے انٹرویوز کیے تو وہیں سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے بھی ٹرین ڈرائیور، گارڈ اور بعض ایسے لوگوں کے انٹرویوز ریکارڈ اور ایڈ ٹ کرکے مقامی میڈیا کو دیے گئے، جن کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ٹرین کے مسافر تھے۔
سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والے ریکارڈڈ انٹرویوز میں ایک ٹرین ڈرائیور کا ہے۔اس انٹرویو میں ٹرین ڈرائیور کا کہنا تھا کہ پاکستان فوج کے ایس ایس جی(اسپیشل سروسز گروپ)کے کمانڈوز کی بروقت کارروائی کی وجہ سے آپریشن ہوا اور اس کامیاب آپریشن کے باعث ہماری جان بچ گئی۔
وائس آف امریکہ نے منگل اور بدھ کو جعفر ایکسپریس آپریشن کے دوران مختلف نیوز رومز میں موجود ذمہ ذار صحافیوں سے بھی گفتگو کی۔لیکن وہ پوچھے گئے سوالات کا جواب آن ریکارڈ جواب دینے پر تیار نہیں ہوا۔
ایک نیوز چینل کی سینئر پوزیشن پر موجود عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیکیورٹی ذرائع کی جانب سے اس طرح کی معلومات پہلی مرتبہ نہیں آئیں بلکہ جو رپورٹرز سیکیورٹٰ فورسز کی بیٹ کرتے ہیں ان کے پاس ایسے بنے بنائے ٹکرز آتے رہتے ہیں جنہیں چلانا نیوز روم کے لیےلازمی ہوتا ہے۔
اس سوال پر کہ یہ ٹکرز کہاں سے بنے بنائے آتے ہیں اور اس پر متعلقہ رپورٹرز سے کوئی مزید سوالات ہوتے ہیں یا نہیں؟ اور کیا اس معلومات کو مزید ذرائع سے کراس چیک کیا جاتا ہے یا نہیں؟ عہدے دار نے کوئی جواب نہیں دیا اور بات ہنس کر ٹالتے ہوئے کہا کہ آپ زیادہ معصوم نہ بنیں۔
سینئر پوزیشن پر موجود عہدے دار نے مزید بتایا کہ جعفر ایکسپریس کے آپریشن کے دوران سیکیورٹی ذرائع سے ملنے والی خبروں پر من و عن اکتفا کرنا ان کے لیے ایک معمول کی بات تھی۔ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو نیا ہوا ہو۔ اب یہ پاکستانی نیوز روم کے لیے یہ ایک معمول بن چکا ہے۔