تربت: یونیورسٹی میں بلوچ طلبا کی ریلی، تعلیمی حقوق اور بنیادی سہولیات کی بحالی کا مطالبہ

67

تُربت یونیورسٹی میں بلوچ اسٹوڈنٹس اور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی، جس میں طلبہ نے اپنے تعلیمی حقوق، ہاسٹل الاٹمنٹ، اور بنیادی سہولیات کی بحالی کے مطالبات پیش کیے۔ ریلی کے دوران مختلف نعرے لگائے گئے، جن میں “کتاب دوستی جرم نہیں”، “بلوچ اسٹوڈنٹس کی پروفائلنگ بند کرو”، اور “یونیورسٹی آف تُربت کی انتظامیہ کی غنڈہ گردی نہیں چلے گی” شامل تھے۔

بساک اور اسٹوڈنٹس کی طرف سے درج ذیل مطالبات کیے گئے کہ ہاسٹل الاٹمنٹ کی بحالی کچھ اسٹوڈنٹس کے ہاسٹل الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا گیا تھا، جسے فوراً بحال کیا جائے، غیر ضروری جرمانوں کا خاتمہ، یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے بعض اسٹوڈنٹس پر 15,000 اور 20,000 روپے کے غیر ضروری جرمانے عائد کیے گئے ہیں، جنہیں ختم کیا جائے۔

مطالبات میں شامل ہے کہ یونیورسٹی ھاسٹل گیٹ کی 24 گھنٹے دستیابی اسٹوڈنٹس کو مشکلات کا سامنا ہے، لہٰذا گیٹ کو 24 گھنٹے کھلا رکھا جائے تاکہ طلبہ آسانی سے یونیورسٹی ھاسٹل میں آ جا سکیں۔

مزید ہاسٹل وزٹ کے اوقات میں نرمی
اسکالرز اور دیگر افراد کے ہاسٹل وزٹ کے اوقات کو شام 10 بجے تک مقرر کیا جائے تاکہ تعلیمی سرگرمیاں متاثر نہ ہوں، سائنس لیبارٹری کی سہولیات میں بہتری، بیسک سائنسز کے طلبہ کے لیے پریکٹیکل لیب میں ضروری سامان فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے تجربات اور تعلیمی کام بہتر طریقے سے مکمل کر سکیں۔

بساک کی جانب سے ڈیڈ لائن اور آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا گیا کہ بساک کی قیادت نے یونیورسٹی انتظامیہ کو مطالبات کے حل کے لیے دوپہر 2 بجے تک کی مہلت دی ہے۔ اگر اس وقت تک مسائل کا حل پیش نہ کیا گیا، تو 2 بجے کے بعد ایک باقاعدہ پریس کانفرنس منعقد کی جائے گی، جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

بساک اور طلبہ رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو احتجاج کا دائرہ وسیع کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر یونیورسٹی کے دیگر طلبہ کو بھی اس تحریک میں شامل کیا جائے گا۔

طلبہ کی جدوجہد: تعلیم کے حق کی جنگ

انہوں نے کہاکہ یہ احتجاج صرف چند مطالبات تک محدود نہیں بلکہ بلوچ طلبہ کی مجموعی جدوجہد کا حصہ ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کتابوں سے محبت جرم نہیں، بلکہ ایک مثبت سرگرمی ہے جسے فروغ دینا چاہیے۔ یونیورسٹی کا کام طلبہ کی تعلیم اور فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا۔

یہ احتجاج نہ صرف طلبہ کے حقوق کے لیے ایک اہم قدم ہے بلکہ بلوچستان میں تعلیمی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اجاگر کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اگر انتظامیہ نے طلبہ کی آواز کو نظرانداز کیا، تو اس کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھانے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔