بدھ کے روز امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد کانگریس سے اپنے اولین خطاب میں کہا کہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ سنہ2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والا مرکزی ملزم پکڑا گیا۔
امریکہ اور پاکستان کا دعویٰ ہے کہ محمد شریف جعفر کو بلوچستان میں افغان سرحد کے قریب علاقے سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا ہے اور وہ اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے خودکش حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 183 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تاہم طالبان سے وابستہ میڈیا المرصاد نے اس دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد شریف کا کابل ایئرپورٹ حملے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
محمد شریف جعفر کون ہے؟
المرصاد کے مطابق محمد شریف جسے انجینئر شریف اجمل اور جعفر کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے داعش خراسان کا رکن تھا، ستمبر 2019 میں افغانستان کی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (NDS) نے اسے کابل سے گرفتار کیا تھا۔
افغانستان کے سیکیورٹی ادارے این ڈی ایس نے اس وقت کے بیان میں کہا تھا کہ محمد شریف کابل میں داعش کے خودکش حملوں کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد میں ملوث تھا اسے دو دیگر داعش ارکان، ناصر اور عبدالواحد کے ساتھ گرفتار کیا گیا، جو کابل میں حملوں کی ذمہ داری لے رہے تھے۔
15 اگست 2021 کو جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو ہزاروں قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا جن میں محمد شریف بھی شامل تھا رہائی کے بعد وہ داعش خراسان میں دوبارہ شامل ہو گیا اور طالبان کے 2022 اور 2023 میں داعش کے خلاف آپریشنز کے نتیجے میں فرار ہو کر پاکستان چلا گیا۔
کابل ایئرپورٹ حملے کے اصل ماسٹر مائنڈ کون تھے؟
المرصاد کے مطابق کابل ایئرپورٹ حملے کے اصل ماسٹر مائنڈ عبداللہ کابلی اور ڈاکٹر حسین تھے، عبداللہ کابلی: داعش خراسان کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کا انچارج تھا اور 9 اپریل 2023 کو طالبان نے صوبہ نیمروز میں ایک آپریشن کے دوران اسے ہلاک کر دیا۔ ڈاکٹر حسین داعش کی سوسائیڈ بریگیڈ کا انچارج اور مغربی زون کا عسکری کمانڈر تھا اسے 5 اپریل 2023 کو ہرات میں طالبان نے ایک کاروائی میں مار دیا تھا۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہی دونوں افراد کابل ایئرپورٹ حملے کے اصل ماسٹر مائنڈ تھے اور انہیں طالبان نے پہلے ہی ہلاک کردیا تھا، طالبان حمایت یافتہ میڈیا گروپ کا کہنا تھا کہ اس لیے امریکہ اور پاکستان کا یہ دعویٰ کہ محمد شریف حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا، حقائق کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔
امریکہ اور پاکستان کے بیانات پر سوالات
المرصاد کا کہنا ہے کہ اگر محمد شریف 2019 میں افغانستان کی حکومت کے زیر حراست تھا، تو وہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ کیسے ہو سکتا ہے؟
اس کے علاوہ پاکستان میں اس کی موجودگی اور گرفتاری پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، المرصاد نے کہا کہ محمد شریف کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ داعش خراسان نے اپنی آپریشنل سرگرمیوں کے لیے پاکستان کو محفوظ پناہ گاہ بنا لیا ہے۔
افغان طالبان حمایت یافتہ میڈیا پاکستانی اور امریکی صدر کے دعویٰ پر کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان نے محمد شریف کو کابل ایئرپورٹ حملے کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر اپنی سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ٹرمپ انتظامیہ اس خبر کو اپنی انسداد دہشت گردی کی کامیابی ثابت کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے پاکستان اس گرفتاری کے ذریعے امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
المرصاد کی رپورٹ اور 2019 کی افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی ا”این ڈی ایس” کی دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ محمد شریف 2019 میں ہی گرفتار ہو چکا تھا اور 2021 میں کابل حملے کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہو سکتا طالبان کے مطابق حملے کے اصل ذمہ دار عبداللہ کابلی اور ڈاکٹر حسین پہلے ہی مارے جا چکے ہیں، جس سے امریکہ اور پاکستان کے بیانیے پر مزید سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔