بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مزید 41 افراد جبری لاپتہ ، ایک شخص بازیاب

145

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ، قلات، کوئٹہ ، نوشکی اور تربت سے مزید 41 افراد کو پاکستانی فورسز نے جبری لاپتہ کردیا۔

تفصیلات کے مطابق پاکستانی فورسز نے کوئٹہ کے علاقے قمبرانی روڈ سے دو نوجوان گرفتار کر کے جبری لاپتہ کردیئے۔

لواحقین کے مطابق پاکستانی فورسز نےگزشتہ رات تقریباً 11 بجے چھاپہ مار کر فضل الرحمان قمبرانی ولد حاجی خلیل قمبرانی اور ضیاء رحمان قمبرانی ولد عبدالرشید قمبرانی کو انکے گھر کلی قمبرانی سے حراست میں لیکر جبری لاپتہ کردیا ۔

نوشکی سے آمد اطلاع کے مطابق حال ہی میں پورے نوشکی سے درجنوں نوجوانوں کو پاکستانی فورسز نے جبراً گمشدہ کر کے نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ مزید نوشکی، کلی جمالدینی کے تین نوجوان جبری گمشدگی کا شکار بن گئے۔ نصرالدین ولد ملنگ شاہ کو 21 فروری 2025 کو شام 5 بجے نوشکی اسٹیشن کے قریب ہوٹل میں مزدوری کرنے کے بعد اپنے گھر واپس جاتے ہوئے لاپتہ کر دیا گیا، جو تا حال لاپتہ ہیں۔

دو بھائی ابرار بلوچ اور عدنان بلوچ ولد اکبر جمالدینی کو 28 فروری اور 1 مارچ کی درمیانی شب ان کے گھر کلی جمالدینی سے سکیورٹی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ جبکہ عدنان بلوچ اگلے دن بازیاب ہوگئے ۔

عدنان بلوچ اس سے قبل بھی جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔

بی وائی سی نوشکی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ خاموشی توڑیں اور اس سنگین مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دیں۔ اگر ہم اب خاموش رہیں تو آنے والے وقت میں مشکلات کا انبار ہوگا۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اس غیر قانونی عمل کے خلاف جلد آواز اٹھائیں۔ حالیہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست بلوچ نوجوانوں کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ خاموشی کا مطلب ظالم کو مزید طاقتور بنانا ہے۔

تربت سے اطلاع کے مطابق گزین لیاقت ولد لیاقت نامی جماعت نہم کا طالب علم آج شام آپسر میں گھر سے نکلنے کے بعد واپس نہیں ہوا۔

وہ سید ہاشمی گرائمر اسکول تربت میں جماعت نہم کا طالب علم اور گیشکور آواران سے تعلق رکھنے والے بی ایس او پجار کے سابقہ کیڈر لیاقت بلوچ کے فرزند ہیں۔

قلات سے گزشتہ رات پاکستانی فورسز نے دو درجن سے زائد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے ۔

بی وائی سی قلات نے ایک جاری بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں ریاستی قہر برپا کیا جارہا ہے رواں ہفتے سینکڑوں بلوچ نوجوان جبری گمشدگی سمیت درجنوں مسخ شدہ لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے گئے، جبکہ جبری گمشدگیوں، ریاستی مظالم اور ڈیتھ اسکواڈز کے جبر کیخلاف بلوچستان بھر میں احتجاج اور دھرنے جاری ہیں۔

قلات میں گھر گھر چھاپے مارے جارہے ہیں اور اس دوران اب تک کی اطلاعات کے مطابق پینتیس سے زائد افراد جبری طور پر گمشدہ کئے گئے۔ جن کی شناخت اشفاق بلوچ ولد خدا بخش ،محمد اسحاق ،ولد حافظ غلام نبی، جمیل احمد ولد مولوی یاسین ،محمد حمزہ ولد عبدالواحد ،محراب ولد عبدالوحد ، مصباح الحق ولد عبدالجبار ، غلام اللہ ولد عبدالرشید ، غلام فارق ولد غلام نبی ، غلام فارق ، محمد مصطفیٰ ولد غلام حیدر ، مہر تر خان ولد غلام فاروق ، عبدل احمد ولد علی احمد ، ناصر احمد ولد علی احمد ،بالاچ خان ولد عطااللہ ، فراز احمد ولد فیض احمد ، ساجد والد فیص ، مہر طارق ولد جان محمد ، محمد بخش ولد جان محمد گاٹر خان والد داد کریم ، سمیر احمد ولد حاجی رمضان ، محمد اسماعیل ولد در محمد ،جمیل ولد ہدایت اللہ ، عصمت اللہ ولد غلام حیدر ،صدام ولد محمد عظیم ، علی دوست ولد اللہ بخش ، حاجی عبدالرحیم ولد علی محمد ،ذاکر ولد عبدالرحیم ، معیز ولد محمد اقبال ، مولوی منیر احمد ، سرفراز ولد منیر احمد ،نیک محمد ، احمد ولد حاجی محمد بخش ، نعیم ولد عبدالصمد ،اسد اللہ ولد عبدالحمید ،خلیل احمد اور واجد احمد ولد خلیل احمد کے ناموں سے ہوئے ۔جنہیں آج رات قلات میں واقع ان کے گھر سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا

بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان بھر میں ریاستی جبر کی نہ صرف مزمت کرتی ہے بلکہ بلوچستان اور بلوچستان سے باہر انسانی حقوق کے اداروں اور باشعور سیاسی، سماجی نیز ہر طبقہ فکر کے لوگوں سے مزاحمت کی اپیل کرتی ہے۔ قلات سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اشفاق بلوچ سمیت دیگر درجنوں افراد جو آج رات جبری لاپتہ ہوئے ہیں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

دریں اثنا ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے لاپتہ کیے گئے نوجوان حسرت خلیل ولد میر خلیل نیکی آج صحیح سلامت بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔

انہیں 13 فروری 2025 کو تمپ کے نواحی علاقے گومازی سے جبری لاپتہ کیا گیا تھا ،حسرت خلیل کے بازیابی کی تصدیق ان کے اہل خانہ نے کی ہے۔