بلوچ طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے میڈیا میں اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ قابض پاکستان نے منشیات اور گینگ وار کے نام پر لیاری میں بلوچ نسل کشی کا ایک طویل سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ 13 مارچ 2018 ء کے رات کے 9 بجے کے قریب لیاری کے علاقے کلری علی محمد محلہ(ایر گوات) کو سندھ رینجرزکے درجنوں گاڑیوں میں سوار سینکڑوں نفریوں نے علاقے کو مکمل سیل کیا اور آمد و رفت کیلئے مکمل بند کرکے سرچ آپریشن کے نام پر گھر گھر تلاشی لیکر چادر و چاردیواری کو پامال کیا گیا۔
رینجرز کی جانب سے علاقہ مکمل سیل ہونے کی وجہ سے علاقہ مکین اپنے اپنے گھروں میں محصور ہوگئے تھے جو لوگ اب تک باہر تھے اُن کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی سینکڑوں کے تعداد میں علاقہ مکینوں نے رات سڑکوں پر بسر کی ہے، جبکہ رینجرز کی پرتشدد کاروائیوں سے درجنوں لوگ زخمی ہوگئے تھے لیکن رینجرز نے ایمبولینس اندر جانے کی اجازت نہیں دی تھی، رینجرز کی دہشت زدہ کاروائیوں سے ایک خاتون کو دل کا دورہ پڑھ گیا تھا ،ایمبولینس کو اندر جانے کی اجازت نہ ہونے کی سبب خاتون کا انتقال ہوگیا۔
ترجمان نے کہا کہ لیاری میں ریاستی فورسز گینگ وار کے نام پر کاروائیاں کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا نشانہ عام بلوچ عوام ہے۔ لیار ی کے علاقے کلری میں اس کاروائی میں رینجرز نے گینگ وار کے خلاف آپریشن کے نام پر چار بلوچ نوجوانوں کو قتل کیا جس میں چاکر نامی نوجوان زہنی حوالے سے معزور تھا، مہر علی بلوچ کو دو سال قبل لیاری کے علاقے سنگولین سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جبکہ ملیر داؤد گوٹھ کے رہائشی عامر علی ولد علی بخش ، عمیر علی ولد علی بخش کو دو اگست 2017ء کو ان کے گھر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا تھا ان تینوں نوجوانوں کو حالیہ کلری آپریشن میں جعلی مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا ہے واضح رہے ان تینوں نوجوانوں کی اہل خانہ نے ان کی گمشدگی کی پٹیشن کورٹ میں داخل کیا تھا ۔ جبکہ تین سو کے قریب لوگوں کو گرفتار کرکے ماری پور روڈ میں واقع سندھ پیپلز اسٹیڈیم میں رینجرز کے کیمپ میں منتقل کردیے گئے تھے جن کو زہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اکثریت کو رہا کردیا گیا ہے لیکن درجنوں لوگ اب بھی رینجرز کے قید میں ہیں۔
لیاری کے تمام علاقوں میں رینجرز کا گشت اور عام لوگوں کو اُٹھا کر لے جانا ، خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانا عام سی بات ہے ۔لیاری میں ریاست بلوچ نسل کشی کے طویل منصوبے کے تحت بلوچ نوجوانوں کو گینگ وار جیسے بلوچ نسل کش منصوبے میں ملوث کررہا ہے۔ آئے روز انہی نوجوانوں کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں تین چار ماہ بعد مختلف علاقوں میں آپریشن کرکے جعلی مقابلوں میں ان نوجوانوں کو قتل کرتے ہیں۔
ترجمان نے بلوچ نوجوانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ نوجوان قومی سرمایہ ہیں ۔ بلوچ نوجوان ریاست کے تمام شاطرانہ منصوبے سے خود محفوظ کرکے اپنی توانائیوں کو قومی مفاد میں صرف کریں ۔