حب: دھرنا بدستور جاری ، گرفتار ساتھیوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔ سمی دین بلوچ

58

جبری گمشدگیوں کے خلاف حب بھوانی میں دھرنے اور احتجاج آج چوتھے روز جاری ہے،اس وقت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنما سمی دین دھرنے میں موجود ہیں، جبکہ دوسری جانب سیماء بلوچ، ماہ زیب بلوچ اور دیگر ساتھی، جنہیں پولیس نے گرفتار کیا تھا، تاحال رہا نہیں کیے گئے۔

سمی دین نے کہاکہ ہمارے ساتھی حب کے تمام تھانوں میں گئے، مگر وہاں ہمارے گرفتار ساتھی موجود نہیں تھے۔ تاہم، حب سٹی تھانے کو بند کردیا گیا ہے اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی، حتیٰ کہ ہمارے وکیل دوستوں کو بھی اندر نہیں جانے دیا جا رہا۔ ہمیں شدید شبہ ہے کہ ہمارے ساتھی اسی تھانے میں موجود ہیں، لیکن پولیس اس کی تردید کر رہی ہے۔ ہمیں اپنے گرفتار ساتھیوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں، کیونکہ انہیں کسی بھی خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ظفر بلوچ کی والدہ، جنہیں گرفتار کیا گیا تھا، ایک گھنٹے بعد رہا کر دی گئیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام گرفتار لوگوں کو فوری اور بحفاظت رہا کیا جائے۔

سمی دین بلوچ نے کہاکہ متاثرہ خاندانوں نے 20 دن قبل بھی اسی مقام پر تین روزہ دھرنا دے کر شاہراہ بند کی تھی، جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے مذاکرات کے بعد 20 دن کے اندر گمشدہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم، حکومت اپنی یقین دہانی پوری کرنے میں ناکام رہی، جس کے بعد لواحقین نے مجبوری میں ایک بار پھر حب ہائی وے کو بند کردیا۔

انتظامیہ کی جانب سے وعدے پورے کرنے کے بجائے، آج صبح 6 بجے پولیس نے دھرنے پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے فائرنگ کی، مظاہرین پر تشدد کیا، اور 9 افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں 8 خواتین اور بچے شامل ہیں، جن میں سیمہ بلوچ اور ماہزیب بلوچ بھی شامل ہیں۔ گرفتار افراد کو ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ پولیس کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کر رہی اور نہ ہی یہ بتا رہی ہے کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جو لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر رہے تھے، وہ خود اب جیلوں میں قید ہیں۔