بلوچ نسل کشی میں انتہائی شدت اور ریاستی جبر کے خلاف اس وقت پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

60

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ صرف اس سال کے ابتدائی دو مہینوں میں تقریباً دو سو بلوچوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور درجنوں بلوچوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ہے۔ محض ان دو مہینوں میں جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان میں سیکڑوں احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اور دھرنے دیے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اس وقت چار مقامات پر لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنے جاری ہیں، بلوچستان کی اہم شاہراہیں مکمل طور پر بند ہیں، اور پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے۔ ہر سڑک، ہر علاقہ، ہر گاؤں—ریاستی جبر سے متاثرہ لوگ احتجاج اور دھرنوں کی صورت میں سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں اس وقت حقیقی معنوں میں ریاست اور ریاستی نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ صرف گزشتہ دو مہینوں میں ریاستی جبر سے متاثرہ عوام درجنوں بار سڑکوں پر نکل کر احتجاجاً بلوچستان کی تمام شاہراہوں کو مکمل طور پر بند کر چکے ہیں اور یوں بلوچستان کے زمینی رابطے کو دوسرے خطوں سے منقطع کر کے ریاستی نظام سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ ریاستی جبر سے متاثرہ لواحقین کو سڑکوں کی بندش سے عام عوام کو ہونے والی تکلیف کا احساس ہے، لیکن انہوں نے عدالت، آئین اور پریس کلب سمیت ہر ممکن طریقے سے اپنی جدوجہد کو آزمایا ہے، مگر ہر جگہ سے مایوسی اور مزید ظلم کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اب ان کے پاس واحد راستہ یہی بچا ہے کہ اس جبر کے نظام کے خلاف ریاستی نظام کو مفلوج کر دیا جائے۔

مزید کہاکہ ریاستی جبر سے متاثرہ لواحقین کو کوئی شوق نہیں کہ وہ سخت سردی اور بارش میں اپنے گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر بے یار و مددگار پڑے رہیں، بلکہ ریاستی مظالم اور جبر نے انہیں اس پر مجبور کر دیا ہے۔ ریاستی جبر سے متاثرہ لواحقین کو الزام دینے کے بجائے ہر فرد کو ان کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر نے کہاکہ بلوچستان میں عوامی مزاحمت شدت اختیار کر چکی ہے، اور عوام ریاست کے بدترین مظالم کے خلاف کوئٹہ سے حب چوکی اور سوراب سے تربت تک مسلسل سراپا احتجاج ہیں۔ لیکن اپنے جبر اور بربریت کو کم کرنے اور بلوچ نسل کشی ختم کرنے کے بجائے ریاست مظلوم عوام کو مزید دھمکیاں دے رہی ہے۔ احتجاج کرنے والے متاثرہ لوگوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔

ماہ رنگ بلوچ نے کہاکہ ریاست یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ عوام اب ریاستی جبر اور مظالم سے مکمل طور پر تنگ آ چکے ہیں اور مسلسل مظالم سہنے کے نتیجے میں عوام کے دل سے خوف ختم ہو چکا ہے۔ اب دھمکیاں اور ہراسانی انہیں خاموش نہیں کرا سکتیں، بلکہ یہ دھمکیاں اور طاقت کا استعمال عوام کی مزاحمت کو مزید توانائی فراہم کرے گا۔ بلوچ عوام نے ریاستی جبر کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنی تکلیف کو اپنی طاقت بنا لیا ہے۔
ریاست عوام کو دھمکیاں دینے کے بجائے بلوچ نسل کشی بند کرے۔