جمعرات کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماؤں نے لواحقین کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ نوجوان ، طالب علموں کی جبری گمشدگی ایک معمول بن چکی ہے۔ انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لے کر ٹارچر سیلوں میں قید کرنا ایک غیر آئینی اور غیر انسانی عمل ہے، جس نے بے شمار خاندانوں کو شدید ذہنی اور جسمانی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایسے بے شمار گھرانے روزانہ اپنے پیاروں کی غیر موجودگی کا دکھ سہنے پر مجبور ہیں، جو ریاستی جبر اور جبری گمشدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز صرف کراچی سے پانچ بلوچ طلبہ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جن میں یاسر بلوچ ولد سبزل علی، سکنہ: ملیر ڈگ جمعہ گوٹھ، صابر ولد علی دوست سکنہ گریشگ، خضدار، نصیب ولد نسیم، سکنہ. گلشن اقبال کراچی ، گلزار بلوچ ولد عالم سید سکنہ: پروم پنجگور، سرفراز ولد نواز
سکنہ ماڑی پور ٹکری ولیج کراچی ، یاسر بلوچ، جو لیاری یونیورسٹی میں میڈیا سائنسز کے طالب علم ہیں، شامل ہیں۔
گزشتہ شب لیاری سے اپنے گھر واپس آ رہے تھے کہ راستے میں خفیہ اداروں نے انہیں زبردستی حراست میں لے لیا اور جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ ایسے واقعات محض چند افراد کی گمشدگی نہیں بلکہ ایک اجتماعی اذیت ہے، جس میں لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ، خصوصاً مائیں اور بہنیں، سالوں تک شدید ذہنی و جسمانی کرب میں مبتلا رہتی ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہوں گے۔ ریاستی اداروں کی یہ پالیسیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بلوچ طالب علموں کو منظم انداز میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ صابر ولد علی دوست، جو کہ گریشگ، خضدار کے رہائشی ہیں، کو گزشتہ روز کراچی کے علاقے لیاری میں ان کے گھر میں گھس کر پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کر دیا۔ ان کی موجودہ حالت اور مقام کے بارے میں اہلِ خانہ کو کوئی اطلاع فراہم نہیں کی جا رہی۔ اس غیر آئینی جبری گمشدگی کے خلاف ان کے اہلِ خانہ اور رشتہ داروں نے خضدار کے علاقے گریشگ میں سی پیک روڈ بلاک کر کے دھرنا دے رکھا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صابر کو فوری طور پر بازیاب کر کے اہلِ خانہ کے حوالے کیا جائے۔
مزید کہاکہ اسی طرح، گلزار بلوچ، جو اقراء یونیورسٹی میں بی بی اے کے طالب علم ہیں، ان کو نصیب بلوچ کے ہمراہ حسن اسکوائر کے ایک ہوٹل سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا، سرفراز بلوچ، ٹکری ولیج ماری پور کراچی کے رہائشی ہیں، انہیں برانی اسپتال میں اپنے ماموں کی تیمارداری کر رہے تھے، وہیں سے جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم آپ کی توسط سے حکومت سندھ سے اپیل کرتے ہیں کہ صابر، یاسر، نصیب، سرفراز اور گلزار کی فوری بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔ ہم انسانی حقوق کے ملکی و بین الاقوامی اداروں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان نوجوانوں کی رہائی کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہاکہ آخر میں ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر یاسر، صابر، سرفراز، گلزار اور نصیب کو آئندہ تین دنوں میں بازیاب نہیں کرایا گیا تو ان کے اہلِ خانہ آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرنے پر مجبور ہوں گے۔