میڈیا اور پروپیگنڈا
تحریر: سُہرنگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میڈیا ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جو نہ صرف اطلاعات کی ترسیل کرتا ہے بلکہ عوامی جذبات اور نظریات کو پروپیگنڈا کے ذریعے ڈھالنے کا کارخانہ بھی ہے۔ جدید دور میں سوشل میڈیا کی وسیع رسائی اور فوری اثر انگیزی نے دشمن، یعنی پاکستان کی ریاست، کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے ایک مثالی پلیٹ فارم مہیا کر دیا ہے۔ اس دشمنانہ حکمت عملی میں، جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ریاستی ادارے عوام کو ایک منظم اور جانبدار کہانی سناتے ہیں، جس کا مقصد عوام کی سوچ کو مخصوص سمت میں ڈھالنا ہوتا ہے۔
معروف مفکرین جیسے کہ نوام چومسکی نے اپنی کتاب Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media (1988) میں واضح کیا کہ “میڈیا عوامی رائے کی تشکیل میں ایک مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔” اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا صرف معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک طاقتور آلہ ہے جو ذہنی ڈھانچے کو تشکیل دیتا ہے۔
جب بلوچ جنگجوؤں کے ہاتھوں پاکستانی فوج یا انٹیلیجنس اہلکاروں کے گرفتار یا ہلاک ہونے کی خبریں شائع کی جاتی ہیں تو میڈیا انہیں ڈرامائی انداز میں پیش کرتا ہے۔ تصویروں، سلو موشن ویڈیوز، اور پریشان کن موسیقی کے استعمال سے مخصوص جذبات کو ابھارا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام میں دشمن کے لیے غیر ضروری ہمدردی اور حمایت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران بلوچ عوام کی معصومیت اور ان کی جانوں کی قربانی کو عموماً پردے میں رکھا جاتا ہے، تاکہ ایک غیر متوازن اور جانبدارانہ نظریہ کو فروغ دیا جا سکے۔ یہ غیر انسان دوست پالیسیاں نہ صرف بلوچ عوام کی آزادی کی جدوجہد کو پامال کرتی ہیں بلکہ پاکستان کی ریاستی حکمت عملی کی بھی واضح عکاسی کرتی ہیں۔
مزید برآں، کچھ معروف سیاسی و فلسفی شخصیات نے میڈیا کی طاقت کو نہایت اہم قرار دیا ہے۔ مارشل میکلہن نے اپنی مشہور کتاب Understanding Media: The Extensions of Man (1964) میں بیان کیا کہ “میڈیم ہی میسج ہے”؛ یعنی جس ذریعہ سے ہم معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ خود ایک پیغام ہوتا ہے جو ہمارے خیالات اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اسی طرح، والٹر لیپ مین نے اپنی کتاب Public Opinion (1922) میں میڈیا کو عوامی رائے کی تشکیل کا ایک اہم محرک قرار دیا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میڈیا کا کردار صرف خبروں کی ترسیل تک محدود نہیں بلکہ عوامی ذہنیت کو بھی متعین کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، نام نہاد پاکستانی دانشور اور صحافی اکثر ایک ایسا منظم اور ریاستی کنٹرول شدہ بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو بظاہر بلوچ عوام کے مسائل کو اجاگر کرتا ہوا نظر آتا ہے، مگر دراصل اس کا مقصد بلوچستان کی حقیقی شناخت اور آزادی کی جدوجہد کو پسِ منظر میں دھکیلنا ہوتا ہے۔ ان کا دعویٰ کہ بلوچ مسئلہ صرف شہری حقوق یا بنیادی سہولیات تک محدود ہے، ایک جانبدارانہ حکمت عملی ہے جو عوامی شعور کو مغلوب کر کے دشمن کے بیانیے کو مضبوط کرتی ہے۔
اس پیچیدہ سیاسی و سماجی منظرنامے میں یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ دشمن، جو کہ پاکستان کی ریاستی پالیسیوں کے تحت اپنی غیر انسانی حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے، کے پاس نہ کوئی اخلاقی اصول ہیں اور نہ ہی کوئی جمہوری اقدار۔ یہ بے رحمانہ اور غیر انسان دوست پالیسیاں بلوچ عوام کی آزادی اور ان کے بنیادی حقوق کو پامال کرتی ہیں، جبکہ میڈیا کے ذریعے اس غیر متوازن تصویر کو پیش کرنا ایک منظم سازش کی علامت ہے۔
آخر میں، میڈیا اور سوشل میڈیا کے اس حربے کا گہرائی سے مطالعہ کرنا اور اس کے پیچھے موجود مقاصد کو اجاگر کرنا از حد ضروری ہے۔ ایک متوازن اور جامع نقطہ نظر اپنانا ہی اس جدوجہد میں کامیابی کی کنجی ثابت ہوگا، تاکہ عوام کو پروپیگنڈا کی سطح سے بلند حقیقی معلومات فراہم کی جا سکیں اور دشمن کے زہریلے بیانیے کو ناکام بنایا جا سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔