جامعہ لسبیلہ: طلبہ کے حقوق کی پامالی یا انتظامیہ کی آمریت؟
تحریر: جویریہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جامعہ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین ساہنسز (LUAWMS) میں حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال اور طلبہ کے حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں۔ وائس چانسلر مالک ترین، بی بی اے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جاوید مہراج، اور دیگر انتظامی عہدیداروں نے کتابی اسٹالز لگانے والے طلبہ پر غیر ضروری دباؤ ڈالا اور انہیں ہراساں کیا۔
یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ایک تعلیمی ادارہ، جہاں آزادی اظہار اور علمی ترقی کو فروغ دینا چاہیے، وہاں طلبہ کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی افسر انور خان اور ان کے ماتحت سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے بلوچ (female)طالبات کے ساتھ بدتمیزی اور بلوچ طلبہ کو نشانہ بنانے کے واقعات انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ LUAWMS کی انتظامیہ نے طلبہ کے حقوق کو نظر انداز کیا ہو۔ اس سے قبل بھی طلبہ کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن اس بار حد پار کر دی گئی ہے۔ ایک جامعہ کو تعلیم و تربیت کا مرکز ہونا چاہیے، نہ کہ طلبہ کے خلاف جبر و استبداد کا گڑھ۔
طلبہ کو ان کے حقوق سے محروم کرنا، انہیں علمی و فکری سرگرمیوں سے روکنا، اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے خوفزدہ کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ LUAWMS انتظامیہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے جبر کا سہارا لے رہی ہے۔ وائس چانسلر مالک ترین اور ان کی ٹیم کو یاد رکھنا چاہیے کہ جامعہ میں حکمرانی کا حق صرف انتظامیہ کو نہیں بلکہ طلبہ کی آواز بھی اتنی ہی اہم ہے۔
مزید جس میں بلوچ اور پشتون ثقافتی اقدار کو پامال کیا گیا۔ سیکیورٹی افسر انور خان نے بلوچ و پشتون ثقافت میں خواتین کے احترام کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے طالبات کے ساتھ بدتمیزی کی، جو ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔ ہماری ثقافت میں خواتین کو عزت و احترام دیا جاتا ہے، لیکن آج انور خان نے اپنی طاقت کے نشے میں ان روایات کو پاؤں تلے روند دیا۔
مزید برآں، جامعہ میں تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ جاوید مہراج، جنہیں طلبہ کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی چاہیے، آج اپنی ہی حیثیت اور استاد کے رتبے سے گر گئے۔ ایک استاد کا فرض علم کی ترویج اور طلبہ کی فکری نشوونما ہوتا ہے، مگر آج جاوید مہراج نے کتابی ثقافت کے خلاف جاکر اپنے ہی وقار کو نقصان پہنچایا۔ ایک ایسی جگہ جہاں کتابیں علم و شعور کا ذریعہ ہوتی ہیں، وہاں انہیں دبانے کی کوشش کرنا کسی تعلیمی ادارے کے شایان شان نہیں۔
اس پورے معاملے میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا کردار بھی انتہائی مایوس کن رہا۔ بجائے اس کے کہ وہ قوانین اور ضابطوں کے مطابق انصاف فراہم کرتے، انہوں نے وی سی مالک ترین کے احکامات کی اندھی تقلید کو ترجیح دی۔ پولیس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اس معاملے میں کیوں مداخلت کر رہی ہے، کیونکہ نہ تو طلبہ نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی کوئی ممنوعہ کتابیں فروخت کی جا رہی تھیں۔ پولیس کا یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کے بجائے صرف طاقتور افراد کے اشاروں پر ناچ رہی ہے، جو انتہائی شرمناک ہے۔
جامعہ لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین ساہنسز (LUAWMS) میں حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال اور طلبہ کے حقوق کی پامالی کوئی نئی بات نہیں۔ وائس چانسلر مالک ترین، بی بی اے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جاوید مہراج، اور دیگر انتظامی عہدیداروں نے کتابی اسٹالز لگانے والے طلبہ پر غیر ضروری دباؤ ڈالا اور انہیں ہراساں کیا۔
یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ ایک تعلیمی ادارہ، جہاں آزادی اظہار اور علمی ترقی کو فروغ دینا چاہیے، وہاں طلبہ کی سرگرمیوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی افسر انور خان اور ان کے ماتحت سیکیورٹی گارڈز کی جانب سے بلوچ (female)طالبات کے ساتھ بدتمیزی اور بلوچ طلبہ کو نشانہ بنانے کے واقعات انتہائی شرمناک اور قابل مذمت ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ LUAWMS کی انتظامیہ نے طلبہ کے حقوق کو نظر انداز کیا ہو۔ اس سے قبل بھی طلبہ کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن اس بار حد پار کر دی گئی ہے۔ ایک جامعہ کو تعلیم و تربیت کا مرکز ہونا چاہیے، نہ کہ طلبہ کے خلاف جبر و استبداد کا گڑھ۔
طلبہ کو ان کے حقوق سے محروم کرنا، انہیں علمی و فکری سرگرمیوں سے روکنا، اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے خوفزدہ کرنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ LUAWMS انتظامیہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے جبر کا سہارا لے رہی ہے۔ وائس چانسلر مالک ترین اور ان کی ٹیم کو یاد رکھنا چاہیے کہ جامعہ میں حکمرانی کا حق صرف انتظامیہ کو نہیں بلکہ طلبہ کی آواز بھی اتنی ہی اہم ہے۔
مزید جس میں بلوچ اور پشتون ثقافتی اقدار کو پامال کیا گیا۔ سیکیورٹی افسر انور خان نے بلوچ و پشتون ثقافت میں خواتین کے احترام کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے طالبات کے ساتھ بدتمیزی کی، جو ناقابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔ ہماری ثقافت میں خواتین کو عزت و احترام دیا جاتا ہے، لیکن آج انور خان نے اپنی طاقت کے نشے میں ان روایات کو پاؤں تلے روند دیا۔
مزید برآں، جامعہ میں تدریس کے مقدس پیشے سے وابستہ جاوید مہراج، جنہیں طلبہ کو صحیح اور غلط کی تمیز سکھانی چاہیے، آج اپنی ہی حیثیت اور استاد کے رتبے سے گر گئے۔ ایک استاد کا فرض علم کی ترویج اور طلبہ کی فکری نشوونما ہوتا ہے، مگر آج جاوید مہراج نے کتابی ثقافت کے خلاف جاکر اپنے ہی وقار کو نقصان پہنچایا۔ ایک ایسی جگہ جہاں کتابیں علم و شعور کا ذریعہ ہوتی ہیں، وہاں انہیں دبانے کی کوشش کرنا کسی تعلیمی ادارے کے شایان شان نہیں۔
اس پورے معاملے میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا کردار بھی انتہائی مایوس کن رہا۔ بجائے اس کے کہ وہ قوانین اور ضابطوں کے مطابق انصاف فراہم کرتے، انہوں نے وی سی مالک ترین کے احکامات کی اندھی تقلید کو ترجیح دی۔ پولیس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اس معاملے میں کیوں مداخلت کر رہی ہے، کیونکہ نہ تو طلبہ نے کسی قانون کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی کوئی ممنوعہ کتابیں فروخت کی جا رہی تھیں۔ پولیس کا یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کے بجائے صرف طاقتور افراد کے اشاروں پر ناچ رہی ہے، جو انتہائی شرمناک ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔