بلوچ یکجہتی کمیٹی کے محکمہ انسانی حقوق کے سربراہ سمی دین بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے خیالات کا اظہار کا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آٹھ ستمبر 2024 کو جب مجھے ملک سے باہر ملک سفر کرنے سے غیر قانونی طور پر روکا گیا، تو میں نے اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا۔ تین ماہ بعد بلوچستان حکومت کی جانب سے ایک لیٹر پیش کیا گیا، جس میں میرے خلاف درج ایک غیر قانونی ایف آئی آر کا حوالہ دیا گیا تھا، جسے جواز بنا کر ایف آئی اے نے مجھ پر سفری پابندی عائد کی تھی۔ گزشتہ چھ ماہ سے میرا کیس مختلف حربوں کے ذریعے تاخیر کا شکار بنایا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ آج دسویں 10th پیشی میں جسٹس کریم خان آغا کی سربراہی میں آئینی بنچ نے بغیر کسی کارروائی کے، نہ میرے وکیل کے دلائل سنے اور نہ ہی آرگومنٹس پر غور کیا، میرے کیس کو “ڈسپوز آف” کرتے ہوئے کہا کہ میں بلوچستان حکومت سے رجوع کروں۔
سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ بماضی میں سندھ ہائی کورٹ کے کئی فیصلوں کی نظیریں موجود ہیں، جن میں اس جج (جسٹس کریم خان آغا) کے فیصلے بھی شامل ہیں جو میرا کیس سن رہے ہیں۔ ان نظیروں میں عدالتوں نے درخواست گزاروں کو پہلے حکومت سے رجوع کرنے کا کہا، اور پھر خود سفری پابندی کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو قانون اور آئین کے مطابق ریلیف فراہم کیا۔ مزید برآں، آج عدالت نے یہ بھی نظرانداز کیا کہ قانون کے مطابق کسی اپیل کا حق صرف وفاقی حکومت کو حاصل ہے، نہ کہ صوبائی حکومت کو، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے درخواست کو صرف خارج کرنا اور مجھے ریلیف سے محروم رکھنا مقصد تھا۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ عدلیہ نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ یہ عدالتیں صرف اپنے آقاؤں کی سنتی ہیں، اور ہم جیسے مظلوموں کے لیے یہاں ناانصافی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ وہی لوگ جو ہمیں قانون پر عمل کرنے اور عدلیہ سے رجوع کرنے کا درس دیتے ہیں، انہی عدالتوں کا حال یہ ہے کہ وہ ان اداروں کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں جو ہماری آواز کو دبانا چاہتے ہیں