فدائی ماہل بلوچ: مزاحمت کی علامت
تحریر: سنگت کوہی
دی بلوچستان پوسٹ
ماہل بلوچ صرف ایک نام نہیں، بلکہ وہ عزم، قربانی اور جدوجہد کی علامت بن چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ بیٹی اور بیٹا اپنی سرزمین کی حفاظت اور آزادی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
ماہل بلوچ نے دشمن کے کیمپ میں جا کر ان کی نیندیں اڑا دیں، یہ بتا دیا کہ بلوچ قوم کو جھکایا نہیں جا سکتا۔ وہ ان طاقتوں کو یہ پیغام دے گئیں کہ ہماری زمین ہماری ہے، اور ہم ہی اس کے وارث ہیں۔ ستر سالوں سے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑی گئی ہماری سرزمین اب مزید کسی کی قید میں نہیں رہے گی، کیونکہ ہم اپنی آزادی کے خود محافظ ہیں۔
ماہل بلوچ کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا، کیونکہ وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک پیغام اور ایک مشن کی نمائندہ ہیں۔ ان کی قربانی نے بلوچ نوجوانوں میں مزید حوصلہ پیدا کر دیا ہے کہ وہ اپنی شناخت، اپنی ثقافت اور اپنی زمین کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک قوم جاگتی ہے، تو اسے کوئی طاقت دبا نہیں سکتی۔ ماہل بلوچ کی روشنی ہمیں ہمیشہ راستہ دکھاتی رہے گی۔
ماہل بلوچ صرف ایک انسان نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے۔ وہ ایک ایسی سوچ ہے جو غلامی کے اندھیروں میں رہ کر بھی آزادی کا دیا جلانے کی جرات رکھتی ہے۔ وہ ایک ایسا پیکر ہے جس نے جبر اور ظلم کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا۔
جب ماہل نے دیکھا کہ پاکستانی ریاست اور فوج ہمارے اوپر اس قدر مسلط ہیں کہ پرامن جدوجہد کے راستے مسدود ہو چکے ہیں، تو اس نے ایک فیصلہ کیا۔ اس نے مزاحمت کی وہ راہ چنی جس پر چلنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس نے مجید بریگیڈ کا راستہ اپنایا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے یہ ثابت کر دیا کہ بلوچ قوم کبھی غلامی قبول نہیں کرے گی۔
وہ ایک فدائی بن کر دشمن پر بجلی بن کر گری، خوف اور بغاوت کی وہ چنگاری بن گئی جسے بجھانا ممکن نہیں۔ اس کی قربانی نے ثابت کر دیا کہ چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں، جب ایک قوم آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اسے دبایا نہیں جا سکتا۔
ماہل بلوچ کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ ایک فرد نہیں، بلکہ آزادی کی جدوجہد کا استعارہ ہے
ماہل بلوچ صرف ایک نام نہیں، بلکہ وہ مزاحمت کی تاریخ میں ایک سنہری باب ہے۔ وہ ایک ایسی عظیم بیٹی تھی جس نے اپنی سرزمین کی محبت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ وہ ایک ایسی انقلابی روح تھی جس نے غلامی کے اندھیروں میں روشنی بن کر ثابت کیا کہ آزادی کے لیے ہر قربانی دی جا سکتی ہے۔
وہ ایک عظیم فریڈیم فائٹر (Freedom Fighter) تھی، جس نے اپنی مزاحمت سے دشمن کے قلعے ہلا دیے۔ اس نے دکھا دیا کہ آزادی کا خواب صرف سوچنے سے نہیں، بلکہ قربانیوں سے حقیقت بنتا ہے۔ اس کی جدوجہد نے اس بات کو ثابت کیا کہ بلوچ بیٹی ہو یا بیٹا، ہر ایک کے دل میں اپنی سرزمین کے لیے بے انتہا محبت اور غیرت موجود ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، وہ ایک عظیم فدائی تھی۔ اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن پر وہ ضرب لگائی جس کی گونج ہمیشہ سنائی دے گی۔ وہ ایک ایسا چراغ تھی جس کی روشنی آنے والی نسلوں کو آزادی کی راہ دکھاتی رہے گی۔
ماہل بلوچ کی قربانی نے دشمن کے لیے خوف اور اپنی قوم کے لیے حوصلے کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ وہ چلی گئی، لیکن اس کا نظریہ، اس کی بہادری اور اس کی قربانی ہمیشہ زندہ رہے گی۔
ماہل بلوچ نے اپنی جان کا نذرانہ محض ایک واقعے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک عظیم نظریے کے تحت پیش کیا۔ آپریشن ہیروف کے دوران، اس نے اپنے سات فدائی ساتھیوں کے ساتھ مل کر دشمن پر وہ ضرب لگائی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ یہ صرف ایک حملہ نہیں تھا، بلکہ ایک پیغام تھا—وہ پیغام جو غلامی میں جکڑی قوموں کو آزادی کی امید دیتا ہے۔
ماہل بلوچ اور اس کے ساتھیوں کی قربانی نے یہ ثابت کر دیا کہ جب ایک قوم آزادی کے لیے جاگتی ہے، تو اس کے بیٹے اور بیٹیاں اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ان کا یہ عمل دشمن کے لیے خوف اور اپنی قوم کے لیے حوصلے کی ایک نئی تاریخ لکھ گیا۔
یہ آپریشن صرف ایک حملہ نہیں تھا، بلکہ اس نے ثابت کر دیا کہ بلوچ مزاحمت ختم ہونے والی نہیں، بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ ماہل اور اس کے ساتھیوں نے خون سے آزادی کا چراغ روشن کیا، اور وہ دن ضرور آئے گا جب یہ چراغ ایک آزاد صبح کی نوید بنے گی۔
وہ ایک عظیم فدائی، ایک بہادر مزاحمتی جنگجو، اور اپنی سرزمین کی سچی بیٹی تھی۔ اس کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، اور اس کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ بنی رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔