بلوچستان نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ دانشوروں اور شعور کے سرچشموں کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چند روز قبل کیچ میں پی ایچ ڈی اسکالر اور علم دوست نوجوان اللہ داد بلوچ کو پاکستانی فوج کے آلہ کاروں نے دن دہاڑے قتل کر دیا۔ اس وحشیانہ واقعے کے خلاف ان کے ورثا اور بلوچ قوم نے بھرپور احتجاج کیا۔ اسی دوران استاد شریف ذاکر پر قاتلانہ حملہ اس اجتماعی سزا میں ایک اور سنگین اضافہ ہے۔ پہلے ہی ان کے بیٹے اور ایک کزن کو پاکستانی فوج نے جبری طور پر لاپتہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ کوئی انفرادی واقعات نہیں بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ ہیں، جس کے تحت اساتذہ، دانشوروں، اور تعلیم یافتہ بلوچوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پروفیسر صبا دشتیاری، پروفیسر عبدالرزاق، زاہد آسکانی، استاد علی جان، ماسٹر نذیر اور بے شمار دیگر بلوچ اساتذہ اور دانشور ریاستی جبر کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تربت میں اللہ داد بلوچ کا قتل اور استاد شریف ذاکر پر حملہ کوئی اتفاقیہ یا غیر منظم کارروائی نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ پاکستانی فوج اپنے تنخواہ دار آلہ کاروں کے ذریعے بلوچ دانشوروں کو چن چن کر ختم کر رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں بلکہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ طبقے پر حملوں کا ایک تسلسل ہے۔ اساتذہ، طلبا اور دانشوروں کو نشانہ بنانا ایک واضح حکمتِ عملی ہے جس کا مقصد ان آوازوں کو خاموش کرنا ہے جو آزادی، انصاف اور بلوچ قوم کے شعور کے لیے اٹھتی ہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا بلوچ دانشوروں اور تعلیمی شخصیات کو ختم نشانہ بنانا بلوچستان کی روح پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف بلوچ سماج کو علمی اور فکری طور پر معذور کرنا ہے بلکہ ایک ایسا خوف زدہ ماحول پیدا کرنا ہے، جہاں کوئی بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔ یہ پالیسیاں بلوچ قوم کو پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لیے اپنائی جا رہی ہیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں تعلیم، شعور اور قومی شناخت سے محروم رہیں۔
مزید کہاکہ ہم عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی مجرمانہ خاموشی پر شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان اس خاموشی کو استثنیٰ سمجھ کر بلوچ نسل کشی میں مزید شدت لا رہا ہے۔ عالمی بے حسی نے ایک قاتل ریاست کو مزید بے خوف بنا دیا ہے، جس کا نتیجہ آزادی کے متوالوں اور انصاف کے متقاضیوں پر بڑھتے ہوئے ظلم کی صورت میں نکل رہا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بی این ایم ان تمام منظم حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے اور تربت میں حالیہ مظالم سمیت بلوچستان میں جاری ریاستی جبر کی عالمی سطح پر فوری، آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس نسل کشی پر خاموش نہ رہیں، ظلم کے خلاف عملی اقدامات کریں اور ان مظالم کے ذمہ داروں کو بین الاقوامی عدالتوں میں جوابدہ ٹھہرائیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا ہماری جدوجہد محض ایک عام مسئلہ نہیں بلکہ یہ ہماری قومی بقا، قومی تشخص اور آنے والی نسلوں کی آزادی کی جنگ ہے۔ دنیا کو اس صورتحال کی سنگینی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نہ صرف اپن ی قومی آزادی بلکہ خطے اور دنیا بھر میں دہشت گردی کے مرکز و منبع ریاست کے خلاف تنہا جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں اس تحریک میں عالمی برادری اور خطے کے ذمہ دار ممالک کی حمایت کی اشد ضرورت ہے، دنیا کو إحساس کرنا چاہئے کہ جب حق و سچ کے میدان خارزار میں ایک قوم کا حال و مستقبل داؤ پر لگی تب خاموشی اختیار کرنا بھی جرم بن جاتا ہے۔