بیڈ بوائز
تحریر: سیم زہری
دی بلوچستان پوسٹ
زہری سے خضدار یا سوراب جاتے ہوئے مین ہائی وے پر مشرقی طرف ایک چھوٹا سا گاؤں زرکزئی سردار کا کوٹ انجیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو زہری گھٹ جو ( جو مطلب پانی کا چشمہ ) ، نورگامہ سوہندہ جو ، انجیرہ جو ،گزان جو ، زاوہ نوغے جو ( جہاں میر اسرار کا گھر ہے ) باغبانہ سمبان جو وغیرہ۔ یوں لگتا ہے اُس زمانے میں زرکزئی نے جہاں پانی کا چشمہ دیکھا قبضہ کرکے بیٹھا۔
اگر ہم انجیرہ کو “بیڈ بوائز (Bad Boys ) “ کا ایک اڈہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ یہاں ایک الگ دنیا بستی ہے۔ قاتلوں کی دنیا۔ سازشیؤں کی دنیا۔ یہاں قبائلی روایات کی آڑ میں بلوچ قومی روایات کو روز روندا جاتا ہے۔ روز یہاں کوئی بزرگ سفید پوش یا شریف انسان بے عزت ہوتا ہے۔ یہاں روز کسی نہ کسی بلوچ بہن کی آبروریزی ہوتی ہے۔
اس اڈے کی اپنی ایک تاریخ ہے غالباَ پہلی بار اس دھرتی کو سردار دودا خان اول نے قبضہ کیا بعد میں یہاں ان کے بیٹے میر علی نواز سردار ثنا اللہ نعمت مہر اللہ یوسف سکندر وغیرہ سال چھیاسی کے ستمبر کے مہینے میں جب اپنے بڑے بھائی سردار رسول بخش کو اپنی ہی بھائی میر یوسف کے قتل کے بدلے میں شال میں بلا کر قران پاک کے کے اوپر ہاتھ رکھ کر قسم کھا کر فیصلہ کرنے کے بعد پیچھے سے وار کرکے قتل کرنے کے بعد باقاعدہ انجیرہ میں سکونت اختیار کر لی۔
سب سے پہلے آپ کے ساتھ ایک بوڑھے چرواہے کی کہانی شیئر کرتا ہوں۔ شاہ دوست میروزئی ایک گدانی بلوچ جسے اپنے بھیڑ بکریوں سے ہی سروکار تھا۔ کبھی گزران کبھی ملغوے کبھی میروزئی دشت میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ شاہ دوست کا ایک بیٹا مرحوم عبدالحمید میروزئی نے یوسف زرکزئی کے ساتھ دوستی کی۔ زرکزئی کی دوستی کیا بس اس کا تھوفنگ بڈ کرنا ہے۔ جو وہ کہے آپ کو کرنا ہے۔ جس کھڈے میں آپ کو کودنے کا حکم دے وہ بھی کرناہے۔ یوسف زرکزئی اپنے دوست عبدالحمید میروزئی کو اپنے ساتھ لیکر نکلتے ہیں۔ حمزہ بوبک کے گدان میں کھانا کھاتے ہیں۔ حمزہ کو ساتھ لیکر انجیرہ کی طرف نکلتے ہیں راستے حمزہ کو قتل کرتے ہیں۔ یہیں سے میروزئی کا پتہ کٹ جاتا ہے۔ بعد میں مرحوم عبدالحمید میروزئی اپنے زوجہ جنت خاتون کے ساتھ پیمازی کے مقام پر مارے جاتے ہیں۔ عبدالحمید کے دیگر بھائی بدلہ لینے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ امینو میراجی کے بیٹے اس قتل میں سہولت کاری کرتے ہیں۔ بدلے میں میروزئی قبیلہ امینو میراجی کے ساتھ لڑ جاتا ہے قتل و غارت گری کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے۔ کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ معمولی سی جنگ ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے قبیلے کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے۔ مولہ چھاڑی کے مقام پر عبدالحمید میروزئی کے بھائی ٹریکٹر میں سوار شہول اور بوبک کے آدھ درجن لوگوں کا خون بہاتے ہیں جو کسی شادی کے لئے لکڑیاں جمع کرنے نکلے تھے۔ ادھر گزان میں کھوچو کے مقام پر نائب میرو زرکزئی کا بیٹا خادم اور بھتیجا نورجان اسی جنگ کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
شاہ دوست کے خاندان سے ایک نوجوان عبدالعزیز صاحب پڑھ لکھ کر اس فرسودہ بدبودار ماحول سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اپنے خاندان کو لیکر کراچی حب چوکی نکل جاتے ہیں پھر کبھی دوبارہ گاؤں آنے کا سوچ بھی اپنے دماغ سے نکال دیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے عبدالعزیز صاحب اپنے اس اقدام میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کے چچا مولوی عبدالخالق انجیرہ میں رہ کر سردار کے دربار میں حاضری دیتے دیتے اپنے نوجوان بیٹے فضل مجاہد کو بدنام زمانہ “ بیڈ بوائے “ میر زیب کا گارڈ بنا دیتا ہے فضل مجاہد بعد میں بلوچ نوجوانوں کے اغوا و شہادت میں ملوث ہونے کی وجہ سے بلوچ قومی فوج بی ایل اے کے نشانے پر آ کر مارا جاتا ہے۔
ایک اور کہانی بتاؤں۔۔۔۔ میروزئی و میراجی کی طرح بوبک اور چنال بھی زہری میں بسنے والے دو قبیلے ہیں۔ چنال قبیلے کا “ بیڈ بوائے “ مالی چنال اور بوبک قبیلے کا سرغنہ “ بیڈ بوائے “ حمزہ بوبک تھا جس نے سردار زرکزئی سے دوستی کا ایسا سبق سیکھا کہ دھائیاں گزرنے کے باوجود بوبک و چنال قبیلہ آج تک اپنے زخم چاٹ رہے ہیں۔
ایک اور کہانی۔۔ شہول زہری کا ایک گمنام قبیلہ ہے جس نے سردار زرکزئی کے ساتھ دوستی کی ، باڈی گارڈ کا رول پلے کیا۔ سردار کے کہنے پہ سردار کے مخالفین سمیت اپنے بھی کچھ بھائی بندو گولیوں سے چھلنی کرنے کے بعد ہوش کرکے انجیرہ سے وہ بھاگا کہ ابھی بھی زخموں کے نشان دماغوں سے نہیں مٹتے ہیں۔ اُس زمانے میں “ بیڈ بوائے” ربّو شہول اپنے قبیلے کا سرغنہ ہوا کرتا تھا۔
ایک اور کہانی۔۔۔۔ اس قبیلے کا زکر کئے بغیر ساری تحریر نامکمل ہوگی۔ زہری میں سب سے پہلے تعلیم کی زیور سے آراستہ قبیلہ “ کہنی قبیلہ “۔ میری دانست کے مطابق اس کہانی کی شروعات ملا سعد اللہ کہنی سے ہوتا ہے۔ بعد میں بی ایس او کے عروج کے زمانے میں بڑے بڑے دگج نام ڈاکٹر شفیع زہری ، ڈاکٹر محمد دین زہری ، رحمت اللہ صاحب سمیت قبیلہ کے دیگر ارکان ان سرداروں سے قربت رکھتے تھے۔ انجیرہ میں رہتے تھے۔ انجیرہ میں انجیرئی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شھید زکریا ، شھید یاسین ، شھید صدام کے نام سے آپ سب واقف ہونگے۔ اسی مٹی سے نکل کر اپنی غلامی کو سمجھنے میں کامیاب ہوگئے۔ آزادی کی راہ پہ نکلے۔وطن پہ قربان ہوئے۔ لیکن دیگر انجیرئیوں کا کیا بنا۔ کتنے نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ آخر نتیجہ کیا ہوا۔کہنی قبیلے نے بھی اس قربت کی ایک بہت بڑی قیمت چکائی۔ سردار کی بھٹی میں روٹی پکانے سے لے کر دو درجن شہدا کی قبریں اور کچھ کھنڈرات جن میں کبھی وہ خود رہتے تھے۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک دن انجیرہ کو خیرباد کرنا ہی پڑا۔ کہنی قبیلہ انجیرہ سے ہجرت کرگیا۔ کیوں۔ کیونکہ انجیرہ اچھے لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ بیڈ بوائز کا اڈہ ہے۔
ایک اور کہانی۔۔۔۔۔ زہری خود ایک پسماندہ علاقہ ہے لیکن زہری میں ذالکان کا گاؤں آج بھی ابتدائی قرون وسطیٰ کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں خوشکابہ پہ کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ اسی خوشکابہ پہ کھیتی باڑی کی وجہ سے زمیندار لوگ اپنی زمینوں کو بزغری پر دیتے تھے۔ یہاں ایک غیرمعروف قبیلہ جمالزئی کا بسیرا تھا۔ جمالزئی قبیلہ زمیداروں کی انہی زمینوں کی بزغری کرتے تھے۔ اس قبیلے کا سرغنہ کچھ کچھ سمجھدار آدمی جس نے بیرونی ملک کا بھی سفر کیا تھا۔ نام مرحوم حاجی محمد عالم جمالزئی۔ پڑھنے والوں کے لئے کہانی کو تھوڑا آسان کر دیتا ہوں۔ چند سال پہلے زہری میں ایک مسجد کے اندر چھ نمازی باجماعت نماز ادا کرنے کے دوران مارے گئے۔ آپ سب کو یہ واقعہ یاد ہوگا۔ انہی ہلاک ہونے والوں میں ایک حاجی محمد عالم دوسرا ان کا بیٹھا اور تیسرا نماز پڑھانے والا مولوی تھا اور باقی تین بھی اسی قبیلے خاندان سے تھے۔ مرحوم حاجی محمد عالم بھی اسی انجیرہ کے دربار میں حاضری لگاتے تھے۔ ہر سال عید مبارکی دینے جاتے تھے۔ سردار زرکزئی کی آشیرواد سے بہرہ مند ہوتے تھے۔ پھر واپس ذالکان چلے آتے تھے۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ آقا کے موڈ بدل گئے۔ حاجی محمد عالم جمالزئی سردار کے دربار سے بیزار ہوئے۔ آنا جانا بھی کم کیا۔ انجام کو پہنچا۔
قصہ مختصر دو بھائی ہوتے ہیں ایک عطا محمد دوسرا کریمو۔ قبیلہ جمالزئی۔ عطا محمد ذالکان میں اپنے بیٹے سیف الرحمن کے ساتھ ملکر لوگوں کی زمینوں پہ بزغری کرتے تھے۔ کریمو کے بیٹے علی احمد عرف مٹھو ، یوسف ، جلال عرف جلّو ، رحیم بخش عرف رحُو جمالزئی سندھ میں مزدوری کی غرض سے جاتے تھے۔ لیکن بعد میں چوری چکاری کرنے لگے تھے۔ سندھ پولیس کو مطلوب ہونے کے بعد دوبارہ زہری منتقل ہو گئے تھے۔ عطا محمد نے اپنے بیٹے علی جان کا رشتہ ظہور جمالزئی کی بہن بانو سے طے کیا اور عطا محمد کی بیٹی زینب کا رشتہ کریمو کے بیٹے سے طے ہوا۔ جسے براھوئی میں ادلی بدلی کہتے ہیں۔
بانو کا شوہر علی جان دبئی میں کام کرتے تھے۔ ایک رات سیف رحمان نے ( بقول اُن کے ) کسی کو بانو کے گھر سے نکلتے دیکھا فائر کی غالبا جتک قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان مارا گیا۔ کچھ دیر بعد سیف الرحمان نے سیاکاری کے شبے میں ظہور جمالزئی کی بہن یعنی اپنی بھابھی بانو کو بھی مار ڈالا۔ بانو کے بھائیوں نے اپنی بہن کو بے گناہ کہہ کر بدلے میں ایوب جمالزئی کو مارا۔ اور اس طرح قتل و غارتگری کا ایک سلسلہ پھر سے شروع ہوا۔ علی احمد مٹھو اس کا بھائی یوسف جمالزئی دودا خان زرکزئی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ جمالزئی قبیلہ دو حصوں میں بٹ گیا۔ سیف الرحمان کا گروپ زہری گھٹ کا درباری بن گیا۔ جلال عرف جلّو جمالزئی اپنے بھائی رحیم بخش عرف رحُو اورحالیہ دور کا نفسیاتی مریض ظہور جمالزئی کو لیکر انجیرہ پہنچ گیا۔
سندھ کے علاقے میں چھوٹی موٹی چوری کرنے والے علی احمد مٹھو اور اس کے بھائیوں کو میروزئی شہول بوبک چنال حسرانی کی تاریخ سے کوئی واقفیت نہ تھی۔ اس لئے تاریخ سے سبق سیکھنے کا ان کے پاس موقع بھی نہ رہا۔ سردار زرکزئی کی دوستی کو لڈّو سمجھ کر چکھ لیا۔ انجیرہ میں بیٹھ گئے۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے پر ڈکیتیاں کرنے لگے۔ ایک دوسرے کو مارتے رہے۔ بانو کی سیاہ کاری سے جنم لینے والی اس جنگ میں سمالانی سلمانجو جتک سمیت کئی قبیلوں سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔
سوشل میڈیا کا زمانہ ہے تین سال قبل مولہ کے مقام پر وڈیرہ اکبر جمالزئی کے گھر پر حملہ ہوا۔ اکبر مارا گیا۔ اس کا گھر جلایا گیا۔ اس کے گھر کے خواتین اٹھائے گئے۔ ویڈیو میں ایک شخص وڈیرہ اکبر کے گھر سے اٹھنے والے آگ کے شعلے اور دھنوئے کو دکھا کر کہہ رہا تھا ہم نے مارا ہے۔ وہ مار نے والا سورما یہی رحیم بخش جمالزئی عرف رحُو تھا اور اکبر ان کا چچا زاد بھائی ہی تھا۔
وڈیرہ سبزل خان سلمانجو اپنے قبیلے کا “ بیڈ بوائے “ بن کر زرکزئی کے ساتھ دوستی نبھاتے نبھاتے گولیوں سے چھلنی ہو گیا۔ محمد کریم حسرانی کا بیٹا مرحوم جان محمد حسرانی بھی زرکزئی کی دوستی میں “بیڈ بوائے “ کا کردار ادا کرکے سوراب میں میر یوسف کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ وڈیرہ عبدالنبی حسرانی نے بھی اس دوستی کی قیمتی چکائی۔ ایس ایچ او ریاض زرکزئی۔ پیر محمد تراسانی کا بیٹا محمد رحیم۔ میر امان اللہ زرکزئی اس کا پوتا۔ کس کس کا نام گنوا دوں۔ وڈیرہ عزیز تراسانی کی لاش انجیرہ سے دوگن پہنچا۔ وہ بھی اسی دربار میں چلتے پھرتے ملتے تھے۔ مولہ سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین کا پوتا مولوی عبدالحفیظ عید ملن پارٹی میں ماں بہن کی گالی سے مستفید ہو گئے۔
ایک اور کہانی۔۔۔۔۔ یہ کہانی مختصر کروں گا۔ دشت گوران میں سناڑی مینگل کا ششک کے اوپر تنازعہ ہوتا ہے۔ قبائلی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ مولوی الٰہی بخش سناڑی سمیت دونوں اطراف سے درجنوں افراد قتل ہوجاتے ہیں۔ جناب حبیب اللہ سناڑی ساکن دشتگوران شال میں بہت بڑے اعلی عہدے پر فائز تھے تعلیم یافتہ تھے۔ لیکن وہ بھی غلطی کر بیٹھے۔ اپنے خاندان قبیلے سمیت انجیرہ پہنچے۔ سردار کا نمک کھا ہی لیا۔ انجیرہ چشمے کا پانی حلق سے اتارا دشتگوران کی طرف چل پڑے اپنے بھائی پروفیسر عالم صاحب کو قبائلی جنگ میں شامل نہ ہونے کی بنا پر بیٹے سمیت قتل کر کے فاتحانہ انداز میں واپس انجیرہ آن پہنچے۔ دشتگوران گدازئی، مَل بتکو میں بھی آپ کو کئی کھنڈرات ملیں گے۔ یہ بھی سردار زرکزئی کی قربت کا نتیجہ ہے۔
ایک اور کہانی۔۔۔۔۔ جیسے زرکزئی نے دوسرے قبائل کو آپس میں لڑایا اسی طرح اپنے بھائی کا خون بھی اچھے سے بہاتا رہا۔ باغبانہ میں شھید میر سفر خان کے بھائی عبداللہ کا قتل ہوا۔ اسی دن بدوکُشت واقعہ رونما ہوا۔ میر پسند خان زرکزئی ان کے بھائی میر رشید خان ، میر گوہر خان کی جیپ اور بس پر حملہ ہوا۔ یہ حملہ سردار دودا خان کے کہنے پر اس زمانے کے “ بیڈ بوائے “ حمزہ بوبک نے سرانجام دیا۔ جیپ میں سوار میر پسند خان اپنے ڈرائیور کے ساتھ مارے گئے۔ اس حملے میں میر شابے خان زخمی ہوئے۔ جبکہ بس میں سوار میر گوہر خان کی بیٹی بی بی کجّل سمیت دیگر افراد قتل اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔ اُدھر سوراب سے میر شھید سفر خان پیمازی کے پہاڑ سے اتر کراپنے بھائی میر عبداللہ کی لاش سمبھال کر زہری لا رہے تھے تو بدوکشت کے مقام پر پتہ چلا کہ دو اور بھائی مارے جا چکے ہیں۔ یاد رہے اس دور میں میر سفر خان دشمن پنجابی سے برسر پیکار تھے۔
اب آتے ہیں نئے دور کے “ بیڈ بوائے “ ظہور جمالزئی کے ہاتھوں عاصمہ کی زبردستی اغوا اور شادی کی کوشش کی طرف۔ عاصمہ کا رشتہ پہلے سے اس کے خالہ کے بیٹے سے طے ہوا تھا جسے ظہور نے قتل کر دیا۔ ظہور جمالزئی پہلے سے دو شادیاں کر چکا ہے۔ زہری گردونواح کا بچہ بچہ جلّو رحُو اور ظہور جمالزئی کے نام سے واقف ہیں۔ اس نفسیاتی خاندان کے ہاتھوں دسیوں افراد قتل ہوئے۔ کسی کو گھر میں گھس کر قتل کیا تو کسی کو دن دہاڑے چلتی ویگن سے اتار کر گولیوں سے بھون ڈالا۔ صرف اس لیے کہ ہماری بہن سیاکار نہیں ہے۔
عاصمہ پہلی لڑکی نہیں جسے انجیرہ نے اغوا کرکے زبردستی شادی کی کوشش کی بلکہ یہاں کئی بلوچ بہنوں کی عصمت دری کئی دھائیوں سے ہوتی رہی ہے۔ ہاں البتہ عاصمہ بلوچ پہلی خوش قسمت لڑکی ہے جس کے گھر والوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ ظہور جمالزئی اور اس کے پانچوں بھائیوں نے اپنی بہن بانو کی سیاہ کاری کو ناجائز اور اپنی بہن کو بےگناہ کرار دے کر جس کو بھی راستے میں دیکھا قتل کیا لیکن یہ بھول گیا کہ عاصمہ بھی کسی کی بہن ہے۔
عاصمہ جتک کے خاندان کے بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں کہ وہ کیسے انجیرہ میں آ کر بسنے لگے۔ معذرت کے ساتھ لیکن ضرور کسی دور میں اس قبیلے کا کوئی “ بیڈ بوائے “ سردار کے دربار میں حاضری دے چکا ہوگا۔ البتہ عاصمہ کے بھائی عطااللہ صاحب کو تب سے جانتا ہوں جب وہ بی آر سی خضدار میں میرے بیٹے کا کلاس فیلو تھا۔ دیر آید درست آید۔ عطا اللہ نے تعلیم حاصل کرکے کم از کم عبدالعزیز میروزئی کی طرح اپنے خاندان کو انجیرہ سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن بڑی قیمت چکانے کے بعد۔۔۔۔۔ اور آج اپنی بہن عاصمہ کے لئے بھی ڈٹ کر کھڑا ہوا۔ پورے بلوچستان تک اپنی آواز پہنچائی۔ پہلی بار سب سے بڑے “ بیڈ بوائے “ سردار ثنا اللہ زرکزئی کو شکست دے دیا۔ انسان ہمت کرے تو کیا کچھ نہیں ہوتا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔