شہید سنگت ثناء بلوچ: ایک بہادر رہنما
تحریر: مطیع بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے کچے پکے راستوں، پہاڑوں اور وادیوں میں سے ایسی داستان جو درد، جدوجہد اور قربانی سے بھری ہوئی ہے۔ یہ داستان سنگت ثناء بلوچ کی ہے، ایک ایسے نوجوان کی جو اپنے خوابوں اور اصولوں کے لیے جیا، جہاں بھی گیا وطن اور اس کے لوگوں کی آزادی کی بات کی اور اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنے والا غیر معمولی نوجوان
سنگت ثناء بلوچ 10 اکتوبر 1979 کو بلوچستان کے ضلع مستونگ کے ایک عام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن دوسرے بچوں کی طرح سادہ اور بے تکلف تھا۔ وہ خضدار میں پلے بڑھے، جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں، انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا۔ یہیں پر انہوں نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی، جہاں ان کی قیادتی صلاحیتوں نے سب کو متاثر کیا۔ وہ جلد ہی تنظیم کے نائب چیئرمین بن گئے۔
لوگوں کی خدمت کا جذبہ
2007 میں جب سائیکلون یمن نے بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو تباہ کر دیا، تو سنگت ثناء نے بی ایس او آزاد کے تحت ریلیف آپریشن کی قیادت کی۔ وہ دن رات متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کے لیے کام کرتے رہے۔ انہوں نے ضرورت مندوں تک خوراک، پانی اور دیگر امدادی سامان پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے انہیں ایک رہنما کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔
سیاسی جدوجہد کا آغاز
تعلیم مکمل کرنے کے بعد، سنگت ثناء بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) میں شامل ہوئے۔ انہوں نے گاؤں گاؤں، شہر شہر جا کر لوگوں کو تحریک آزادی سے جوڑا۔ وہ سادہ زندگی گزارتے تھے، لیکن ان کے خواب بڑے تھے۔ ان کی باتوں میں ایک جادو تھا جو لوگوں کے دلوں کو چھو جاتا تھا۔ وہ نوجوانوں کو یہ باور کراتے تھے کہ آزادی کا سفر مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
جبری گمشدگی اور ظلم کی داستان
7 دسمبر 2009 کو سنگت ثناء بلوچ کو مستونگ سے سبی جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا۔ ان کے خاندان نے ان کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ لاپتہ ہی رہے۔ دوران حراست انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ تحریک آزادی سے دستبردار ہو جائیں، لیکن وہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے۔
13 فروری 2012 کو ان کی لاش تربت کے علاقے مرغاپ سے برآمد ہوئی۔ ان کے جسم پر 28 گولیوں کے نشانات تھے۔ یہ صرف ایک لاش نہیں تھی، بلکہ ظلم و بربریت کی ایک خاموش گواہی تھی۔
ایک قوم کے دل میں زندہ رہنے والا بلوچ آزادی پسند رہنما سنگت ثناء بلوچ کی شہادت نے بلوچ قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جن کی باتوں میں سچائی تھی، جن کے قدم ڈگمگاتے نہیں تھے۔ ان کی شہادت نے تحریک آزادی کو نئی توانائی بخشی۔ آج بھی جب بلوچستان کے نوجوان آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، تو وہ سنگت ثناء کو یاد کرتے ہیں۔
سنگت ثناء بلوچ کی شہادت نے آزادی کی اس جہدوجہد ایک جدید توانائی بخشی۔ انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ آزادی اور اصولوں کے لیے لڑنا آسان نہیں ہوتا، لیکن یہ لڑائی لڑنی ضروری ہوتی ہے۔
آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔
سنگت ثناء بلوچ کی قربانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ آزادی کا سفر طویل اور مشکل ہے، لیکن یہ ناممکن نہیں۔ بلوچ قوم اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دیتی رہی ہے اور دیتی رہے گی۔ یہ جدوجہد جاری رہے گی، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تاریخ کے صفحات میں ہماری جیت لکھی جائے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔