ابرِ کوہسار
تحریر:ثناء ثانی
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کے فلک بوس پہاڑوں میں، جہاں افلاک زمین سے ملنے کے لیے جھکتا ہے اور ہوا کے جھونکے رازوں کی سرگوشیاں کرتے ہیں، وہاں بانڑی کا وجود طلسماتی داستانوں کا مظہر ہے۔ بانڑی کا نام ان وادیوں میں گونجتا ہے، جیسے وہ ان پہاڑوں کا حصہ ہو، جیسے ہوا کی سرسراہٹ، جھیلوں کی سطح پر پھیلتی کرنیں، اور رات کی خاموشیوں میں چھپی دعائیں، سب اس کی کہانی سناتی ہیں۔
بانڑی کا وجود کوئی عام وجود نہیں۔ اس کے جسم میں مٹی کی خوشبو رچی بسی ہے، اس کی سانسیں ہوا کے ساتھ چلتی ہیں، اور اس کی آنکھوں میں وہ آگ ہے جو آزادی کے خوابوں سے روشن ہے۔ وہ جدید دور کی لڑکی ہے، مگر اس کی روح صدیوں پرانی داستانوں میں رچی بسی ہے جو اس نے اپنی بچپن میں سنی تھیں۔ وہ کہانیاں جن میں پہاڑ بولتے ہیں، درخت سرگوشیاں کرتے ہیں، اور ہوا میں چھپی سرگوشیوں میں صدیوں کے راز دفن ہیں۔
بانڑی نے اپنی زندگی کا مقصد ان پہاڑوں سے جوڑ لیا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ وہ پہاڑ جنہوں نے صدیوں سے اس کی قوم کے دکھ درد کے گواہ ہیں، جنہیں وہ سنانے کے لئے بیتاب ہیں۔ اس نے ان پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر نہ صرف اپنی قوم کے سورماؤں کے جدوجہد کی کہانیاں سنی ہیں بلکہ اپنے خواب بھی بنے ہیں۔ بانڑی کا رقص اُن داستانوں کو درخشانے کا مظہر ہے ، ایک جادوئی عمل جس کے ذریعے وہ پہاڑوں سے بات کرتی ہے، ان کی زبان سمجھتی ہے۔
بانڑی کا رقص، ان پتھریلی وادیوں میں ایک ایسی لَے پیدا کرتی ہے جسے سننے کے لیے دل میں سکون چاہیے۔ اس کے قدموں کی چاپ میں وہ چیخیں بھی ہیں جو صدیوں سے دبائی جا رہی تھیں، وہ دعائیں جو کبھی پوری نہ ہو سکیں، اور وہ خواب جو اس کی قوم نے دیکھے لیکن وہ پورے نہ ہوئے، بانڑی کو یقین ہے کہ اس کا رقص، اس کا جنون، ان خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔
اس رات جب بانڑی نے پہاڑوں کے دامن میں پہلی بار رقص کیا تھا، آسمان پر ایک عجیب سا منظر تھا۔ چاند کی روشنی کے ساتھ ساتھ ستارے جیسے ٹوٹ کر زمین پر گرتے نظر آتے تھے، جیسے وہ بانڑی کے رقص کا حصہ بننے آ رہے ہوں۔ بانڑی کے ہاتھوں کی جنبش میں وہ سحر تھا جو دل کو گرفت میں لے لیتا۔ وہ اپنے قدموں سے زمین پر ایسی لکیریں کھینچتی تھی جو نظر تو نہیں آتیں، مگر ان میں جادو چھپا ہوتا ہے۔
بانڑی کی کہانی رقص کے رموز سے ناآشنا لوگوں کی نظروں سے دور، مگر ان پہاڑوں میں محفوظ ہے۔ وہ ایک ایسی جنگجو ہے جو اپنی قوم کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے، مگر اس کے ہتھیار صرف گولیاں نہیں، محبت، اور جادوئی رقص ہے جس میں اس نے اپنے دل کا ہر راز چھپایا ہوا ہے۔ وہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتی ہے، جیسے جانتی ہو کہ اس کے پاس ایسا جذبہ ہے جو دشمن کی بندوقوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔
بانڑی نے اپنے زمین سے وہ طلسماتی سنگیت سیکھیں ہے جو رات کی تاریکی میں پہاڑوں کی چوٹیوں سے گونجتی ہیں۔ ان سنگیتوں میں پہاڑوں کی روحیں شامل ہوتی ہیں، وہ درخت جن کے سائے میں بانڑی نے اپنا بچپن گزارا، اور وہ پرندے جنہوں نے اسے پہلی بار محبت کے گیت سنائے تھے۔ جب بانڑی رقص کرتی ہے، وہ گیت اس کے جسم کا حصہ بن جاتی ہیں، جیسے ہر حرکت کے ساتھ وہ کسی نظر نہ آنے والی طاقت کو بیدار کر رہی ہو۔
اس دن، جب دشمن کی فوج نے ان پہاڑوں پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی، بانڑی نے پہاڑوں کے دامن میں اپنی وجود کو بیدار کیا۔ اس نے اپنے آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائے، اور اس کی آواز میں وہ طاقت تھی جو صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو اپنے مقصد کے لیے مر مٹنے کے ہنر سے آشنا ہیں۔ بانڑی کے الفاظ نے ہوا کی لَے میں سرگوشی پیدا کرکے خاموش پہاڑوں کو زباں عطا کی۔
پہاڑوں نے بانڑی کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جب وہ انہیں پکارے گی، وہ جواب دیں گے۔ اور اس رات، جب دشمن کے طیارے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بمباری کر رہے تھے، بانڑی نے اپنی زمین کو اپنی وجود سے بیدار کیا۔ پہاڑ لرزنے لگے، درختوں کی جڑیں جیسے زمین میں مزید گہری ہو گئیں، اور بانڑی کا جنگی رقص دشمن کی صفوں میں ایسی لہر پیدا کر گیا جیسے ان کے دلوں میں خوف نے جگہ بنا لی ہو۔
بانڑی نے دشمن کے سامنے آ کر اپنی خیالات کو لفظوں میں باندھا، “یہ زمین ہماری ہے، ان پہاڑوں کی روحیں ہماری محافظ ہیں۔ تمہاری گولیاں ہمارے ارادوں کو نہیں توڑ سکتیں، تمہارا ظلم ہماری محبت کو مٹا نہیں سکتا۔”
دشمن کی گولیوں کی آوازوں میں بانڑی کے الفاظ گونجتے رہے، مگر جیسے ہی وہ الفاظ فضا میں بکھر گئے، دشمن کی گولیاں بھی اس کے سامنے بے اثر ہو گئیں۔ بانڑی نے اپنے جنگی رقص کو جاری رکھا، اور اس کے ہر قدم کے ساتھ زمین لرزتی رہی۔
بانڑی کا رقص صرف جمالیات کا اظہار نہ تھا ، بلکہ وہ اپنی قوم کی آزادی کے خوابوں کی تعبیر کے لیے ایک مشعل راہ بن چکی تھی۔ جب وہ رقص کرتی، تو اس کی ہر حرکت میں ایسی جادو چھپی ہوتی جو دلوں کو بیدار کر دیتی۔ اس کے رقص کی لہریں بحر بلوچ کے وسعتوں میں پھیلی ہوئی تھیں، جیسے وہ طوفانوں کو شکست دینے کی قوت رکھتی ہوں۔ یہ رقص صرف ایک فن نہیں، بلکہ ایک تحریک بن چکا تھا، ایک پیغام تھا جو آزادی کے متلاشی دلوں تک پہنچتا۔
اس شام، جب غروب آفتاب کی سرمئی لہریں فلک پر نمودار ہوئیں ، بانڑی نے اپنی محفل سجائی۔ اس نے لوگوں کو اکٹھا کیا کہ اسے ایک پیغام اپنوں تک پہنچانا تھا، اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ دشمن فولادی طاقت نہیں رکھتا بلکہ قابض کی سب سے بڑی طاقت ہماری خوف ہے۔ اگر ہماری قوم اپنے دلوں میں خوف کی زنجیریں توڑ دیں، دشمن کبھی کامیاب نہیں ہو ہوگا۔ اس کے الفاظ نے لوگوں کے دل میں دبی چنگاری کو بھڑکایا۔
“ہمیں اپنے خوابوں کا پیچھا کرنا ہے،” بانڑی نے کہا، “ہمیں اپنے جنگی رقص کے ذریعے اپنی روح کو جگانا ہے۔ یہ رقص نہ صرف ہماری ثقافت کی نشانی ہے، بلکہ یہ ہماری جدوجہد کی عکاس بھی ہے۔ جب ہم رقص کرتے ہیں، تو ہم اپنی روحوں کو آزاد کرتے ہیں۔”
پہاڑوں کی فضاؤں میں بانڑی کی آواز گونجی، اور اس کے الفاظ کی طاقت نے ہر دل کو بیدار کر دیا۔ وہ جانتے تھے کہ بانڑی ان کے ساتھ ہے، اور وہ بھی اپنے رقص کے ذریعے اس کی قوت کو محسوس کر سکتے تھے۔ وہ سب بانڑی کے رقص کے دائرے میں جمع ہوئے، جیسے ایک طاقتور طوفان بیدار ہو رہا ہو۔
پہلی بار، سرزمین کے نوجوانوں نے اپنے ہتھیار اٹھائے اپنے سروں پر سرخ رنگ کی پٹیاں باندھیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی حقیقی طاقت ان کے دلوں میں ہے۔ بانڑی نے انہیں جنگی رقص کی تعلیم دی، اور ان کا رقص اب صرف ایک محفل نہیں، بلکہ ایک بغاوت بن چکا تھا۔ جب وہ رقص کرتے تو اس کے ساتھ ایک دعا بھی ہوتی، ایک ایسی دعا جو دشمن کی قوت کو کمزور کرتی۔
یہ ایک نئی صبح کا آغاز تھا۔ بانڑی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ ایک جگہ اکٹھے ہوئے جہاں دشمن کا لشکر موجود تھا ۔ وہ فرنگیوں کا بنایا چھاؤنی تھا جو استعماریت کا قلعہ ہے، جہاں آزادی کی مشعل کو بُجانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ جب وہ وہاں پہنچے، تو ہوا میں ایک خاص خوشبو تھی، جیسے زمین ان کے عزم کو سرا رہا ہو۔
بانڑی کے ساتھ نوجوانوں نے اپنے قدم بڑھائے۔ وہ سب میدان کارزار میں پہنچے ۔ جب انہوں نے اپنے ہاتھ بندوقوں کے ٹگر پر لئے، تو انہیں ایک غیر مرئی طاقت کا احساس ہوا۔ دشمن کی فوجیں جو دور تھیں، وہ بھی اس منظر کو دیکھنے کی کوشش میں تھے۔ اس رقص کی لہریں ان کے دلوں تک پہنچ رہی تھیں، اور انہیں احساس ہو رہا تھا کہ یہ لوگ صرف تماش بین نہیں بلکہ اپنی آزادی کے لیے لڑنے والے جنگجو ہیں۔
بانڑی کے جنگی رقص کی ہر لہر میں چالاکی اور دلیرانہ جذبہ تھا۔ اس کے جسم کی ہر حرکت جیسے پہاڑوں کی للکار تھی، جیسے وہ پہاڑوں کی حفاظت کر رہی ہو۔ رقص کرتے کرتے، بانڑی نے اپنے ہاتھوں سے ہوا کو چھوا، اور وہ ہوا میں ایک سحر پیدا کرنے لگی۔ ہوا نے اس کے لفظوں کو زمین پر بکھیر دیا، اور وہاں موجود لوگ اس جادو سے سحر زدہ ہوئے۔
دشمن کے دلوں میں خوف اور حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ کیسے یہ لوگ اپنی ثقافت، اپنی روح، اور اپنی آزادی کے لیے کھڑے ہیں۔ انہیں احساس ہوا کہ ان کے سامنے صرف ایک نازک لڑکی رقصاں نہیں، بلکہ ایک تحریک بپا ہے۔ یہ تحریک ایک نئی ابھار کا اشارہ دے رہی تھی، جو آزادی کی جدوجہد کو توانا کرنے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
بانڑی نے اپنی مزاحمتی محفل کو جاری رکھتے ہوئے، بلند آواز میں کہا، “آؤ، مل کر اپنے خوابوں کے لیے لڑیں! یہ سنگلاخ پہاڑ ہمارے ہیں، یہ وادیاں ہمارے ہیں، اور ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی سرزمین کی حفاظت کریں!” اس کی آواز پہاڑوں کی گونج میں شامل ہو گئی، جیسے پہاڑ بھی اس کی باتوں پر سر تسلیم خم کر رہے ہوں۔
پہلی بار، بانڑی نے ایک نئی شکل میں دشمن کا سامنا کیا۔ اس کے جنگی رقص نے قابض کی طاقت کو توڑ دیا۔ جب وہ رقص کرتی، تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی جو دشمن فوج کے ارادوں کو کمزور کرتی تھی۔ اس کے ساتھیوں نے بھی اس کے ساتھ شامل ہو کر جنگی رقص کیا، اور یہ رقص ایک جادو بن گیا جو ہر دل کو بیدار کرتا رہا۔
یہ ایک معرکہ تھا جو اس نے جزبے سے جیتا، اور دشمن کی صفیں ٹوٹنے لگیں، اور ان کے دلوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، جیسے وہ حیران ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔
بانڑی کا جنگی رقص صرف ان کی فتح نہیں بلکہ ایک پیغام کا بھی تھا کہ جب کوئی قوم اپنے خوابوں کے لیے لڑتی ہے، تو وہ شکست کو فتح میں بدل دیتی ہے۔ بانڑی نے یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی جنگ ہمیشہ دلوں میں لڑی جاتی ہے، اور اس کا جنگی رقص ایک نئی سویر کا آغاز تھا۔
دشمن قوتیں آخرکار پیچھے ہٹ گئیں، اور جب وہ میدان چھوڑ چکے تھے ، تو بانڑی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس فتح کا جشن منایا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی، اور اس کے دل میں امید کی ایک نئی لہر تھی۔ انہوں نے اپنے جنگی رقص کے ذریعے یہ ثابت کر دیا تھا کہ آزادی صرف ایک خواب نہیں، بلکہ ایک استقرار ہے۔
قوم اس دن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، جب بانڑی نے انہیں اپنی طاقت دکھائی، جب اس نے اپنی قوم کو ایک نئی سمت دکھائی، اور جب اس نے اپنے جنگی رقص کے ذریعے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر وہ اب اس لڑائی میں اکیلے نہیں تھے۔ بانڑی کے ساتھ، وہ سب مل کر اپنی زمین کی حفاظت کریں گے، اور اپنے منزل کی تکمیل کریں گے ۔
اس دن کے بعد، بانڑی کا جنگی رقص ان پہاڑوں کی ابدی زندگی کا حصہ بن گیا۔ اس کے رقص کی گونج ہر شام وادیوں میں سنائی دیتی، جب سورج غروب ہوتا، اور چاند کی روشنی پہاڑوں پر پھیلتی۔ لوگ آتے، اکٹھے ہوتے، اور بانڑی کے رقص میں شامل ہو جاتے۔ وہ سب جانتے تھے کہ یہ صرف رقص نہیں، بلکہ ان کی آزادی کا جشن ہے۔
آج بھی، جب کوئی پہاڑوں کی چوٹی پر کھڑا ہو کر سر سبز وادیوں پر نظر دوڑاتا ہے، تو وہ مہکتے پھولوں میں بانڑی کے رقص کو محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب تک دلوں میں امید باقی ہے، آزادی کی شمع کبھی بجھ نہیں سکتی۔ بانڑی کی کہانی ایک مثال ہے، ایک استعارہ ہے کہ جب قوم اپنی مٹی سے محبت کرتی ہے، تو وہ جدوجہد سے اپنی مقدر بدل دیتی ہے۔
بانڑی، آج بھی پہاڑوں میں رقصاں ہے ، اپنے لوگوں کے دلوں میں آزادی کی چنگاری جلا رہا ہے۔ اس کی کہانی ہر ایک دل کو بیدار کرتی ہے، کہ ہمیں اپنی آزادی کو تعبیر دینے کے لیے لڑنا ہے، ہمیں اپنے خوابوں کی منزل کے لئے آگے بڑھنا ہے ، کیونکہ بانڑی کا رقص ہمیشہ ہماری رہنمائی کرے گا، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ اس کی کہانی ایک نئے عزم کے ساتھ جڑی ہے، ایک ایسی کہانی جو کبھی ختم نہیں ہوتی، ہمیشہ چلتی رہتی ہے، تاریخ کو روشنائی فراہم کرتے ہوئے ایک نئی صبح کے انتظار میں ہیں۔
بانڑی کے ساتھی اسے ایک طلسماتی جنگجو سمجھتے تھے، مگر اس کا وجود آج بھی پہاڑوں میں رقصاں ہے۔ سورماؤں کے دھڑکتے دل میں زندہ ہے، مگر اس کی موجودگی کو محسوس کرنے کے لیے ایک آزادی کا متوالا دل چاہیے، اعتقاد چاہیے۔ وہ ان لوگوں کے لیے موجود ہے جو اپنی سرزمین سے محبت کرتے ہیں، جو اپنی دھرتی کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں بسا کر جینا چاہتے ہیں۔
آج بھی، جب رات کی تاریکی میں ہوا پہاڑوں سے سرگوشی کرتی ہے، لوگ بانڑی کی آواز سن سکتے ہیں۔ وہ ان کے دلوں میں امید کی لہر پیدا کرتی ہے، جیسے کہتی ہو، “میں زندہ ہوں، میں اس زمین کا حصہ ہوں۔ جب تک تمہارے دلوں میں آزادی کی تڑپ باقی ہے، میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔”
بانڑی ان وادیوں میں رقصاں نظر آتی ہے، کبھی کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ کر دعائیں مانگتی، کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر چاند کی روشنی میں اپنے خوابوں کو آسمان سے بات کرتے دیکھتی ہے۔ بانڑی کا وجود ان لوگوں کے لیے ایک امید اور آزادی کی کرن بن چکا ہے جو اپنی قوم کی وقار کے لیے لڑتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ ان کی لڑائی صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں کی طاقت سے جیتی جا سکتی ہے۔
بانڑی جانتی تھی کہ یہ صرف ایک جنگ کا معرکہ ہے، اصل جنگ اس کے دل میں، اس کے وجود میں جاری ہے۔ وہ جانتی ہے کہ جب تک اس کا دل دھڑکتا ہے، وہ لڑتی رہے گی، چاہے وہ دشمن کے سامنے ہو یا اپنے ہی لوگوں کے خوف اور شک کے خلاف۔
آزادی کے روشن مشعل کو توانائی دینے والے جنگجو جانتے ہیں کہ پہاڑوں کی روحیں سچ بولتی ہیں، وہ مانتے ہیں کہ بانڑی آج بھی ان پہاڑوں میں موجود ہے، رقص کرتی ہے، اور اپنی زمین کے لیے جیتی ہے۔ بانڑی کی کہانی ان پہاڑوں کی طرح ہی ابدی ہے، کبھی ختم نہ ہونے والی، ہمیشہ جاری رہنے والی۔
یہ صرف بانڑی کی نہیں، یہ ان سب لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی زمین کے لیے لڑتے ہیں، اپنی آزادی کے لیے جیتے ہیں، اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بانڑی کی محبت اور جنون جدوجہد میں پنہاں ہے اور جب تک پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہوا کی سرگوشی سنائی دیتی رہے گی، بانڑی کی کہانی امر رہے گی، ہمیشہ کے لیے ابدمان رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔