بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5726 روز جاری رہا۔
آج اظہار یکجہتی کرنے والوں میں موسٰی سیلاچی بلوچ، آغا محبوب شاہ اور دیگر شامل تھے۔
تنظیم کے وائس چئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جبری گمشدگی نہ صرف ایک جرم ہے بلکہ یہ انسانیت کے منافی عمل ہے ایسا کوئی عمل ناقابل قبول و ناقابل برداشت ہے چاہے وہ دہشتگردی کو کاونٹر کرنے کے لیے کی جائے یا کسی جائز مطالبے کے لیے اُٹھائی جانے والی آواز کو دبانے کے لیے، دوسری جانب پاکستان دنیا کو بلیک میل کر کے سفاکیت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف عمل ہے بلوچستان میں پاکستانی خفیہ اداروں نے آئے روز بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی اور دوران انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکنے میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہاکہ 2001 سے لیکر اب تک ہزاروں بلوچ فرزندوں کو پاکستانی خفیہ ادارے بھرے بازار، گھروں ،مسافر گاڑیوں اور تعلیمی اداروں سے لاپتہ کر چکے۔ جن میں ایک بڑی تعداد خواتین ، بچوں اور پیران سال بزرگوں کی بھی ہے، ہزاروں کی تعداد میں جبری لاپتہ افراد کی تشدد زدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ جن کا اعتراف ایمنسٹی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق ،پاکستان کی اپنی سپریم کورٹ حتیٰ کہ پاکستانی پارلیمنٹ بھی کر چکی ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں اپنے گماشتوں کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی کو تیز کرتا جارہا ہے ، بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا اور شہید کر کے اور گھروں کو بمباری کا نشانہ بنا کر پاکستان بلوچ تحریک کو ختم کرنے کے لیئے اپنی دہشتگردانہ کاروائیاں تیز کر رہا ہے۔ پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنے گماشتوں کو بلوچ تحریک کے خلاف ٹاسک دے کر بلوچستان میں سر گرم کر چکا ہے جنہیں ہر صورت میں سامنے لاکر تحریک کا کاونٹر کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔