انسرجنسی، اسٹریکچرل گورننس، وار گورننس، گوریلا فوج اور بلوچ تحریک ۔ ہارون بلوچ

410

انسرجنسی، اسٹریکچرل گورننس، وار گورننس، گوریلا فوج اور بلوچ تحریک 

تحریر: ہارون بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں اس وقت کئی چھوٹی اور بڑی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں آزادی کی تحریکیں، پراکسی جنگیں، کچھ علاقوں میں چند افراد کے مفادات کی بنیاد پر لڑائیاں، اور کچھ مقامات پر حکومتوں کو بدلنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان تمام لڑائیوں کو اکیڈمک دنیا میں عام طور پر “انسرجنسی” کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ ہر انسرجنسی کے اپنے چیلنجز اور مشکلات ہوتے ہیں، جن کا مقابلہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ موجودہ صدی میں، جہاں دنیا میں کوئی واضح نظریاتی آرڈر نہیں رہا، وہاں مختلف نظریات کی بنیاد پر انسرجنسیز جاری ہیں۔ تاہم، کسی بھی تحریک کے لیے گورننس ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوتا ہے۔ مضبوط، منظم اور طاقتور گورننس کے بغیر، کئی انسرجنسیز بدترین شکل اختیار کر چکی ہیں۔ انہیں وقتی طور پر کامیابی ملی، جیسے کہ مرکزی حکومت کا تختہ الٹنا، لیکن گورننس میں ناکامی کی وجہ سے ان تحریکوں نے بدترین انسانی بحران پیدا کیے۔

مثال کے طور پر عرب اسپرنگ موجودہ صدی کا ایک عظیم انقلابی تبدیلی تھا جہاں مڈل ایسٹ کے کئی بدترین اور جابر ریاستوں میں عوامی تحریکیں شروع ہوئیں، جن میں عراق، شام، لیبیا اور کئی دیگر ملکوں میں ریاست نے تشدد کا استعمال کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وہاں مختلف لوگوں نے ہتھیار اٹھا کر حکومت کے خلاف انسرجنسیز کی بنیاد رکھی، کچھ ہی سالوں میں کئی ریاستوں کی مرکزی حکومتیں تباہ ہوئی اور انہیں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن پہلے سے موجود ایک حکومتی، سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کا خاتمے کرتے ہوئے انسرجنسز پر مبنی لیڈرشپ کو اس بات کا احساس نہیں تھا کہ گورننس کسی بھی تحریک یا ریاست کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے اگر اس کا متبادل تیار نہیں کیا گیا یا اس کی تیاری نہیں ہوئی تو یہ تباہی کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ مڈل ایسٹ کے کئی ملکوں میں عرب اسپرنگ سے پیدا ہونے والے انسرجنسیز نے بادشاہتوں اور ڈکٹیٹرشپ پر مبنی حکومتوں کا خاتمہ تو کر دیا لیکن متبادل گورننس پر مبنی نظام نہ ہونے کی وجہ سے اپنے لیے تباہی پیدا کی، ان ریاستوں میں حکومتی تختہ الٹنے کے ساتھ کئی مسلح تنظیمیں پیدا ہوئی، طاقت کی ایک ایسی جنگ چھڑ گئی کہ ان انسرجنسیز نے داعش جیسے سفاک اور انسان کش تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں اور آج بھی ایک دہائی کا عرصہ گرزنے کے باوجود کئی انسرجنسیز کی موجودگی میں مڈل ایسٹ ہمیں بطور ایک تباہ حال ریجن دیکھنے کو ملتا ہے جہاں کئی عالمی طاقتیں اپنے وقتی مفادات پورا کر رہی ہیں جبکہ عام لوگ اور مقامی افراد بدترین دہشتگردی اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں۔

تنظیمی سطح پر اسٹریکچرل گورننس اور وار گورننس کسی بھی انسرجنسی کیلئے بنیادی ضرورت ہوتی ہے، ایک مضبوط گورننس کے نظام نہ ہونے کی صورت میں کوئی بھی تحریک کسی بھی وقت لوگوں کیلئے وبال جان بن سکتی ہے۔ ریاست کے موجودہ اسٹریکچر میں لوگ اپنا گزر بسر کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب آپ لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا کہتے ہیں یا جدوجہد کیلئے انہیں مزاحمت کی راہ پر قائل کرتے ہیں تو ان کے مستقبل کیلئے ایک بہترین سیاسی، علمی اور حقیقی نظام ہونے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ آزادی کوئی خیالی پلاؤ نہیں بلکہ یہ ایک عملی زمہ داری ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہر چیز آزادی کے بعد دیکھ لی جائے گی لیکن حقیقی دنیا میں ایسے خیالی پلاؤ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز آزادی کے جدوجہد کے دوران ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گورننس ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کوئی بھی مضبوط قومی تحریک انکار نہیں کر سکتا بلکہ اس کیلئے تیاری اور محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے جو اس کو کئی حوالوں سے لیوریج دیتی ہے، یعنی بلوچ جنگ میں کوئی بھی ریاست ڈائریکٹ ملوث ہونے کی غلطی نہیں کر سکتی ایسی صورت میں نیوکلیئر جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے جو بڑی طاقتیں کسی بھی صورت اس سے گریز کرنے کی کوشش کرینگے۔ ایسے میں یہ بلوچ طاقت اور قوت پر مبنی ہوگا کہ وہ قابض ریاست کو اس نہج تک پہنچائیں کہ وہ خود بلوچستان سے علیحدہ ہونے کیلئے حامی بھر لیں یا بلوچ قومی تحریک کو ایک ایسی طاقت پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کرنی ہوگی جو دنیا میں ناقابل شکست ہو جو اسرائیل کے ریاستی ماڈل میں ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے کہ مڈل ایسٹ اور کئی سینکڑوں ریاستوں کی مخالفت کے باوجود آج اسرائیل ایک ایسی حقیقت میں تبدیل ہو چکی ہے جس کو دنیا کی کوئی بھی طاقت رد نہیں کر سکتی ہے۔ ایسی طاقت حاصل کرنے کیلئے بلوچ قومی تحریک کو سب سے اہم ایک ایسے گورننس نظام پر کام کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا بھر میں اپنے لیے سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوں.

کسی بھی کامیاب گورننس کے لیے ایک ایسی نسل اور لاکھوں ایسے افراد درکار ہوں گے جو دنیا بھر میں مختلف شعبہ جات میں بلوچ قومی ریاست، اس کے نظام اور گورننس کی حقیقت کو آشکار کریں، جبکہ خود اسے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ بلوچ قوم اس نظام پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے انسرجنسی کی کامیابی کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دے۔ موجودہ پاور پالیٹکس کسی بھی قوم اور انسرجنسی کے لیے سخت ترین طاقت کا تقاضا کرتی ہے۔

آپ چاہے مذہبی نظریے کی بنیاد پر لڑ رہے ہوں یا نیشنلزم کے فکر و فلسفے پر گامزن ہوں، موجودہ ورلڈ آرڈر، جو رئیلزم کی بنیاد پر قائم ہے، کا آپ کے نظریے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ تمام بڑی طاقتیں صرف طاقت کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، طالبان روس میں بطور دہشت گرد رجسٹرڈ تھے، اور روس ان کی سختی سے مخالفت کرتا تھا، لیکن جب طالبان نے افغانستان پر اقتدار قائم کر لیا، تو روس نے طالبان سے تعلقات استوار کرنے کے لیے اپنا وفد افغانستان روانہ کیا۔ جب ایک صحافی نے اس حوالے سے پوٹن سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ “اب حقیقت یہ ہے کہ افغانستان پر طالبان کا اقتدار قائم ہے، اس لیے ہمیں ان ہی سے تعلقات قائم کرنے ہیں۔” یعنی، موجودہ ورلڈ آرڈر کے تناظر میں دنیا میں وہی انسرجنسی اور تحریکیں قابلِ قبول ہیں جو طاقت کے دائرے میں آتی ہیں۔

امریکہ آج بھی کسی حد تک پوسٹ کولڈ وار کی طرح بعض موومنٹس کو نام نہاد انسانی حقوق اور حقِ خودارادیت کی بنیاد پر سپورٹ کرتا ہے، لیکن یہ حمایت صرف وہاں ممکن ہوتی ہے جہاں اس کے مفادات وابستہ ہوں۔ دوسری جانب، چین، روس، اور مشرقی و ابھرتی ہوئی طاقتیں انسانی حقوق جیسے کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر کسی کو سپورٹ نہیں کرتیں بلکہ ان کی حمایت صرف اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ کسی ریاست کے نظام کو کون سی طاقت چلا رہی ہے اور اس کی گورننس کس حد تک قابلِ بھروسہ اور قابلِ اعتبار ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کے ساتھ ان کی دوستی کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اب هم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وار گورننس کیا ہوتی ہے۔ اور بلوچ تحریک کے اندر اس پر بات کرنے اور اس کی تیاری کیوں ضروری ہے۔

گورننس کیا ہے ؟

وار گورننس کو سمجھنے سے پہلے ہمیں گورننس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گورننس سے مراد حکومت یا ریاست کے اندر اس حکومتی نظام کو کہا جاتا ہے جس سے کسی بھی ریاست کے اندر موجود افراد کے مختلف شعبہ جات کو سنبھالا جاتا ہے۔ گورننس اس نظام کو کہتے ہیں جس میں حکومت یا ریاستی سطح پر موجودہ گروہ یا گورنمنٹ لوگوں کے تمام معاملات کو دیکھتا ہے جس میں پارلیمنٹ میں قانون سازی، کاروبار، ہیتلھ، ایجوکیشن، عدل و انصاف کا نظام، پولیس و دیگر فورس کی صورت میں لوگوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا، لوگوں کو انصاف فراہم کرنا، اور دیگر ایسی زمہ داریاں ہوتی ہیں جس سے حکومت میں بیٹھے لوگ یا طاقت پر براجمان لوگ عام افراد کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں جس کے مقابلے میں عوام انہیں ان پر حکمرانی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ گورننس کی یہ معنی فکشنل ریاست کی سطح پر لی جا رہی ہے۔ یہ گورننس آزاد اور خودمختار ریاستوں میں لاگو ہوتی ہے جہاں گڈ گورننس کے ذریعے وہاں کے حکمران عوام کا اعتماد جیتے ہوئے ووٹ لیتے ہیں اور پھر حکومت کرتے ہیں۔ گورننس میں ناکامی کی صورت میں لوگ ان حکمرانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور ووٹ و الیکشن کی صورت میں عوام اپنی رائے حق دیہی کا استعمال کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں دیگر حکمرانوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ گورننس کے نظام کو بہتر طریقے سے چلائیں اور عوام کی ضرورتوں کو پورا کریں۔ جمہوری ریاستوں میں عوام انہی افراد کو ووٹ اور حکمرانی کا حق دیتی ہے جو گورننس کے حوالے سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بدترین کارکردگی پر انہیں عوام کی غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور کئی ملک و علاقوں میں عوام ووٹ و الیکشن کا بھی انتظار نہیں کرتے اور حکومت کے خلاف بغاوت کا راستہ اخیتار کرتے ہوئے حکومت کو چلتا کرتے ہیں جس کی مثال حالیہ دنوں ہمیں بنگلادیش میں دیکھنے کو ملی جب بنگلادیش کے کچھ طلباء نے ایک قانون کے خلاف مظاہرے کیے جہاں حکومت نے ان سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا جس سے ایک بغاوت جنم اٹھی اور شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو بنگلادیش میں عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بنگلادیش سے فرار ہوئے، شیخ حسینہ اسی مجیب الرحمان کی بیٹی ہے جنہوں نے بنگلادیش کو آزاد کیا تھا لیکن گورننس میں ناکامی کی وجہ سے پورے عوام ان کی مخالف ہو گئی.

وار گورننس کیا ہے؟

وار گورننس سے مراد گورننس پر مبنی ایک ایسا نظام جو جنگ کے دوران گروتھ کرنے اور قابل اعتماد نظام ہو، مثال کے طور پر کسی بھی ریاست پر ایک دن میں قبضہ نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بھی ریاست ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر بکھر نہیں جاتا اور نا ہی دنوں میں ملکیں آزاد ہوتے ہیں، یہ ایک طویل لڑائی ہوتی ہے جس میں کبھی دشمن آپ پر غالب آ جاتا ہے اور کبھی آپ دشمن پر غالب آ جاتے ہیں، کچھ مقامات پر دشمن کو کامیابیاں ملتی ہیں اور کچھ مقامات پر یہ کامیابیاں سرمچاروں کو ملتے ہیں، آہستہ آہستہ یہ جنگ لوکل سطح سے عالمی سطح کا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور دشمن کو بھی اس بات کا اندازہ ہونے لگ جاتا ہے کہ آخر ہمیں اس کے شرائط کی بنیاد پر تیسری فریق کی ثالثی میں مذاکرات کرنے چاہیے۔ اب اس طویل لڑائی میں گوریلا فوج یا لشکر کی زمہ داریاں صرف یہ نہیں ہوتی کہ وہ چھاپہ مار کر کسی علاقے سے نکل کر واپس پہاڑوں پر جائیں اور دشمن کے انتظار میں رہیں کہ وہ واپس علاقے میں آکر قبضہ جمائیں۔ پہاڑوں پر گوریلا جنگ لڑی جا سکتی ہے.

لیکن کسی بھی ریاست کو مکل شکست دینے کیلئے شہروں پر قبضہ کرنا ہوتا ہے۔

کسی بھی گوریلا فوج کو ایک وقت میں ایک علاقے یا شہر پر قبضہ کرنے کی قوت حاصل ہو سکتی ہے، لیکن وہ بیک وقت کسی بڑی ریاست کو فتح نہیں کر سکتی۔ جب آپ کسی علاقے میں آپریٹ کر رہے ہوتے ہیں اور دشمن کو وہاں سے نکال باہر کرتے ہیں یا کسی علاقے پر جبراً قبضہ کر لیتے ہیں، تو ایسی صورت میں گوریلا فوج کی ذمہ داریاں صرف جنگی نہیں رہتیں، بلکہ انہیں انتظامی ذمہ داریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب کسی علاقے پر قبضہ کر لیا جاتا ہے تو وہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا گوریلا فوج کا پہلا کام ہوتا ہے۔ انسانی بنیادی ضروریات میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی سب سے اہم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، بچوں کی اسکولنگ کی ذمہ داری بھی گوریلا فوج کو نبھانی پڑتی ہے۔ اسکولنگ کے ساتھ ساتھ، دشمن کی جارحیت کی صورت میں جانی نقصانات کا سامنا کرنے، زخمیوں کے علاج معالجے اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا بھی گوریلا فوج کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد دشمن کی جانب سے سپلائی لائن بند ہونے کی صورت میں عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے، کیونکہ ایسی صورتحال میں عوام میں نفرت پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ ساری باتیں کسی خوف کو بڑھانے کے لیے نہیں، بلکہ ان حقیقی چیلنجز کے پیش نظر تیاریوں کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے ہیں، جو مستقبل میں بلوچ تحریک کو درپیش ہو سکتے ہیں۔

عوام کے لیے سپلائی لائن کی بحالی ایک بنیادی ضرورت ہے، اور یہ مختلف ذرائع سے ممکن ہو سکتی ہے، جیسے کہ سیاسی و سماجی اقدامات، عالمی فنڈنگ، یا کسی اور طریقے سے۔ سپلائی لائن کے ساتھ ساتھ صحت کی بنیادی ضروریات اور اسکولنگ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی گوریلا فوج یا تحریک سے وابستہ اداروں کی ذمہ داری ہوگی۔

بلوچ تحریک میں اس کی ضرورت

بلوچ تحریک کو آج سے دس یا پندرہ سال پہلے کئی علاقے میں اپنے کیمپس قائم کرنے، وہاں رہنے، شہروں میں موجود رہنے کا تجربہ موجود ہے اور میری ناقص رائے میں اگر گورننس کے معاملے میں دیکھا جائے تو وہ تجربہ کئی حوالوں سے مکمل یا قابل دید نہیں رہا ہے۔ مثال کے طور پر علاقوں میں رہنے کے باجود ریاستی گورننس کے نظام کو چلتے رہنے دینا، ریاستی اسکلونگ کے نظام کی Continuation، معاشی پلان کی غیر موجودگی، عوام کی سرکار اور ریاست پر دارومدار، گورننس کے نظام کو ریاست کے حوالے کرنا بلکہ انتظامی طور پر تمام ضرورتوں کا ریاست کی طرف سے اثرانداز رہنا علاقوں میں گوریلا فوج کی موجودگی کے باوجود ریاست کی طاقت کو ذہنی اور سوچ کے حوالے سے مضبوط رہنے میں مدد دی۔ ایسی صورت میں ریاست کیلئے چیلنج صرف فوجی رٹ قائم کرنا تھا جو ریاست نے فوجی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے جلد ہی شہروں، حتی کہ دیہی علاقوں پر بھی مکمل قبضہ جما لیا اور گوریلا فوج کو دنوں اور مہینوں میں شہروں کو خالی کرنا پڑا۔ یہ تجربہ میرے خیال سے بلوچ جدوجہد کیلئے ایک سبق ہونا چاہیے کہ جب تک گوریلا فوج کے ساتھ ساتھ گورننس کا ایک مضبوط نظام تحریک کے اندر شامل نہیں ہوتا ایسی صورت میں ہمیں کسی بھی وقت دشمن کی بدلتی طاقت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کسی بھی ریاست کیلئے طاقت کا رٹ قائم کرنا شاید اتنی بڑی بات نہیں جتنی بڑی مشکل گورننس کے چیلنجز ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوج کے کٹھ پتلی وزیر اعلی اور بلوچستان میں نام نہاد کاؤنٹر انسرجنسی کے ماہر سرفراز بگٹی کا بھی یہی ماننا ہے کہ ہم نے بلوچستان میں فوجی رٹ تو قائم کر لیا لیکن گورننس میں ناکامی کی وجہ سے ہمیں بلوچستان میں انسرجنسی اچانک تیزی سے علاقوں میں پھیلتے ہوئے نظر آیا یعنی اس کی نظر میں بلوچستان میں حالیہ تحریک کسی نہ کسی حد تک بلوچستان کی سطح پر گورننس کی ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوا جس کیلئے اب فوج نے براہ راست سرفراز بگٹی کو بلوچستان حکومت حوالے کر دیا ہے اور ان کی کوشش بلوچستان میں نام نہاد گڈ گورننس کی پالیسی پر گامزن ہے۔ صرف سرفراز بگٹی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے کاؤنٹر انسرجنسی کے اکثر ماہر یہی سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں گڈ گورننس کی ناکامی کی وجہ سے بلوچستان میں انسرجنسی دوبارہ اچانک عوام میں اتنی جلدی سے پھیل گیا۔ گوکہ دشمن کی بلوچستان میں جاری جنگ کے حوالے سے جو بھی انڈرسٹینگ ہے لیکن بلوچ تحریک کیلئے یہ نہایت ہی ضروری ہے کہ وہ بلوچ تحریک کے سامنے موجود مشکلات اور رکاوٹوں کا اچھی طرح سے علم رکھیں اور ان کا مقابلہ کرنے کیلے ایک مضبوط پالیسی کے ساتھ آئیں۔

وار گورننس کو مشکلات کو دور کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

بلوچ تحریک کے اندر ایک ایسی فضا اور سوچ کی ضرورت ہے جہاں پاپولر پالیٹکس اور پاور کے جنگی نطقے کے ساتھ انتظامیہ اور گورننس کے بنیادی علمی اور اسٹریکچرل ریفارمس کو تحریک کے اندر لانے کی کوشش کی جائے۔ مثال کے طور پر معیشیت، طاقت یا پاور بننے کیلئے بنیادی اور کسی بھی گورننس کے نظام کو چلانے کیلئے بنیادی ضرورت ہوتی ہے لیکن بلوچ تحریک میں ہمیں اس کی واضح پلاننگ کی ہمیشہ سے کمی دکھائی دی، مثال کے طور پر ہم ہمیشہ دیگر ممالک کی امیدوں پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں یا عوام کے ان چندوں سے جنگ کو جاری رکھنے میں خوش ہیں جن سے کسی حد تک گوریلا کارروائیاں ہو سکیں لیکن دنیا بھر کی فوجی یا سیاسی قوتوں کی طرح Illicit economy یا انفارمل اکانومی پر توجہ نہیں دیتے، مثال کے طور پر آج بلوچستان میں پاکستانی فوج اپنی فوجی بجٹ سے نہیں بلکہ بلوچستان میں موجود انفارمل معیشیت سے اپنے ڈیتھ اسکواڈز سے لیکر فوجی میجروں تک کو چلا رہی ہے اور جنگ کے دیگر مالی ضرورتوں کو پورا کر رہی ہے۔ انفارمل معیشیت صرف فوج کے ہاتھ میں نہیں ہوتا بلکہ ان تک نان اسٹیٹ ایکٹرز یا انسرجنسیز کئی اہم طریقے سے رسائی حاصل کر سکتے ہیں، پاکستانی فوج کو بلوچستان کی تمام باڈری اور انفارمل اکانوی کو ہاتھ لینے میں صرف ایک سے دو سال کا عرصہ لگا، Illicit economy یا Informal economy کبھی بھی ریاست کے ہاتھ میں نہیں رہا ہے، اکثر و بیشتر یہ گوریلا فوج یا انسرجنسیز پر مبنی مختلف فوجی اور دیگر گروپوں کے ہاتھ میں رہی ہے، خطے اور ریجن میں شاید یہ بلوچ انسرجنسی ہی ہے جو اس میں کسی نہ کسی حد تک ناکام یا کمزور دکھائی دیتی ہے جبکہ خطے کے دیگر فوجی طاقتیں یا تنظیمیں کئی حوالوں سے آگے نکل چکے ہیں جس کی مثال لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی باغی، حماس، افریقہ میں بوکو حرام اور شام اور کئی دیگر علاقوں میں مسلح گروہوں کو حاصل ہے۔ ڈسکیشن کو معیشت تک محدود کرنے کے بجائے دیگر معاملات کو زیر بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معیشت کے ساتھ اسکولنگ کا نظام، جو بچے اس وقت کسی نہ کسی حد تک ہمارے ساتھ ہیں یا جن تک ہماری رسائی ہے، اس حوالے سے بھی ہمیں کمزوریاں دیکھنے کو ملتی ہے، اسکولنگ ذہنی اور فکری نشوونما کی بنیادی سیڑھی ہوتی ہے اور اس حوالے سے بھی ہم ابھی تک قابض ریاست پر انحصار کر رہے ہیں۔ ہیلتھ یا دیگر معاملات بھی زیربحث لائے جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ عدل و انصاف پر مبنی ایک ایسی جوڈیشل نظام جو قانونی، اخلاقی اور دیگر تمام ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔ یہ گورننس کی بنیادی ضرورتیں هیں البتہ اگر ہم اس کی پیچیدگیوں تک گہرائی میں بات کرنے کی کوشش کریں تو ایک وسیع چیپٹر کا آغاز ہو جائے گا لیکن پہلے پہل کوئی انسان یا تحریک آخری سیڑھی نہیں چڑھ سکتا، ہمیں ان بنیادی ضرورتوں پر پہلی سطح پر کام کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی اچانک پیدا ہونے والی صورتحال میں ہم ہاتھ سروں پر رکھنے کے بجائے حالات کو دنیا کے ضرورتوں کے مطابق ایگزیکویٹ کر سکیں۔ گورننس کی مضبوطی عوام پر آپ کے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے اور گورننس کی ناکامی کسی بھی وقت عوام کو بد دل کر سکتا ہے جنہیں دشمن بیانیہ بنانے اور مختلف شکل میں تحریک کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ ہمیں گورننس کے حوالے سے اندرونی کیپسیٹی کو بلڈ کرنے کیلئے پہلے پہل چھوٹے پیمانے پر ایک وار گورننس کے اسٹریکچر کو تنظیم کے اندرونی کارکردگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہر ادارے میں ایسے شعبہ جات کی موجودگی جس کا تعلق براہ راست پاپولر پالیٹکس، موبلائزیشن، جنگی کارروائیوں کے بجائے انتظامی زمہ داریوں کو سرانجام دینے میں ہوں جو تحریک کیلئے ایک اسٹریکچرل گورننس کی بنیاد رکھیں، آنے والے دنوں میں کسی بھی ایمرجنسی صورت حال میں یہ اسٹریکچرل گورننس وار گورننس میں بدل سکتا ہے۔ جس کی مثال ہمیں حالیہ دنوں ایچ ٹی ایس کی جانب سے شام میں دیکھنے میں ملا جب انہوں نے ادلب کے چھوٹے سے شہر میں قائم اپنے گورننس کے نظام کو ایمرجنسی صورت حال میں چھ مہینوں کیلئے شام کی مرکزی حکومت کو لیڈ کرنے کی زمہ داریاں سونپ دی۔ آرگنائزیشنل سطح پر اسٹریکچرل گورننس کی ضرورت بلوچ تحریک کو اس وقت شدید ضرورت ہے جس سے تحریک کے اندر گورننس کے حوالے سے کیپسٹی بلڈنگ پر کام ہو سکتا ہے۔

اختتامیہ

بلوچ تحریک کو جلد از جلد تنظیموں کے اندر ساختی اصلاحات (اسٹرکچرل ریفارمز) کی طرف بڑھتے ہوئے گورننس کو ایک چیلنج کے طور پر تنظیمی سطح پر متعارف کرانا چاہیے اور اس حوالے سے یونٹ سے لے کر مرکز تک تنظیمی سطح پر صلاحیت سازی (کیپیسٹی بلڈنگ) کا آغاز کرنا چاہیے۔ جب کوئی تحریک چند قدم آگے بڑھتی ہے تو اس کی ذمہ داریاں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہیں، اور بلوچ تحریک کی ذمہ داریاں اس وقت کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ عوامی سطح پر بلوچ عوام کی تحریک کے لیے بڑھتی ہوئی مقبول حمایت ایک کامیابی بھی ہے اور ساتھ ہی ایک بڑی ذمہ داری کا بھی تقاضا کرتی ہے۔

تحریک اور تنظیم کے اندر فکری نشوونما (انٹلیکچوئل گروتھ) کو مضبوط کرنا ضروری ہے تاکہ ہم محض سطحی اور جذباتی بنیادوں پر نہیں، بلکہ علمی اور ساختی بنیادوں پر آنے والے چیلنجز کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔ اس کے لیے بلوچ نوجوانوں پر بھی بھاری اور سنجیدہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتظامیہ کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے، ان میں موجود ضروریات کو جاننے اور ان پر عملی کام کرنے کی کوشش کریں تاکہ مستقبل میں کسی بھی اقتدار کی منتقلی (پاور شفٹ) کی صورت میں ہمیں گورننس کے حوالے سے انسانی وسائل (ہیومن کیپیسٹی) اور مہارت (اسکلز) کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

گورننس میں ناکامی کسی بھی تحریک کی بنیاد کو تباہ کر سکتی ہے، اور اس کے لیے نوجوانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو اہمیت دینی چاہیے اور اس پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تقریر اور تحریر محض تحریکی متحرکیت (موبلائزیشن) کے لیے اہم ہوتے ہیں، لیکن گورننس میں ان کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ گورننس دراصل عملی طور پر ڈیلیور کرنے کا عمل ہے، اور اگر ڈیلیوری نہ ہو تو کسی بھی سطح پر گورننس مؤثر نہیں رہتی۔

بلوچ قیادت کو گورننس کے اہم اور بنیادی پہلوؤں پر تنظیمی سطح پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تجزیہ کرنے اور ان پر عملی کام کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ ہم صرف تقریروں، مباحثوں اور دعوؤں کے ذریعے عوام کو آزادی کے خواب نہ دکھائیں، بلکہ حقیقی اور عملی معنوں میں انہیں ایک آزاد ریاست کا نمونہ پیش کریں، جس پر عوام مکمل بھروسہ کرتے ہوئے اپنا سب کچھ آزادی کے حصول کے لیے قربان کرنے کو تیار ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔