مری اور بگٹی قبائل کا تنازعہ – امن یا تصادم؟ ۔ اکبر بلوچ

157

مری اور بگٹی قبائل کا تنازعہ – امن یا تصادم؟

تحریر: اکبر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سرزمین، خصوصاً ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے مری اور بگٹی قبائل صدیوں سے اپنی روایات، غیرت اور قبائلی اقدار کے ساتھ آباد ہیں۔ دونوں قبائل کی اپنی الگ شناخت اور تاریخ ہے، جو انہیں بلوچستان کی ثقافتی و سماجی حیثیت میں ایک منفرد مقام دیتی ہے۔ تاہم، حالیہ عرصے میں مری پھیلاوغ زمین کے تنازعے نے شدت اختیار کر لی ہے، جس کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے مسلح افراد، جو عوام فورسز کے نام سے سرگرم ہیں، کی جانب سے مری قبیلے کی سرحدی زمینوں پر بزورِ طاقت قبضے کی کوشش ہے۔ اطلاعات کے مطابق، ان افراد نے سات کیمپ قائم کر رکھے ہیں اور مزید قبضے کی کارروائیاں جاری ہیں۔

یہ تنازعہ صرف زمین تک محدود نہیں، بلکہ چراگاہوں، پانی، ریت، پتھر اور قدرتی وسائل کے حصول کی کشمکش میں بھی شدت آ چکی ہے۔ نوحکانی بگٹی قبیلہ طاقت کے زور پر آگے بڑھ رہا ہے اور مری قبائل کے افراد کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، مسلح افراد نہ صرف عام راہگیروں کو ہراساں کر رہے ہیں بلکہ انہیں زدوکوب اور تشدد کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ صورتحال اس وقت مزید سنگین ہو گئی جب سرفراز بگٹی کے گروہ نے حالیہ دنوں میں مری قبائل کے گھروں پر چھاپے مارے، لوہارانی مری قبیلے کے معززین اور عام افراد کو اغوا کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا۔ ان گرفتاریوں کی وجوہات بھی ظاہر نہیں کی گئیں، اور مزید گرفتاریاں جاری ہیں، جو سراسر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

مری قبیلہ ہمیشہ بھائی چارے اور ہمسایہ داری کے اصولوں پر یقین رکھتا آیا ہے اور کسی قسم کے تصادم یا خونریزی کے حق میں نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ امن اور باہمی احترام کو ترجیح دیتا ہے، مگر مسلسل دباؤ اور زبردستی کے باعث اس کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ بگٹی قبیلے کے کچھ مسلح عناصر نے طاقت کے زور پر لوہارانی مری کی زمینوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اس کے باوجود، مری قبیلہ جارحیت کے بجائے مسائل کا پرامن حل چاہتا ہے اور اپنی زمینوں پر اپنی تاریخی ملکیت برقرار رکھنے کا خواہاں ہے۔

مری عمائدین مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے، مگر جبراً مسلط کردہ قبضہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ مری قبائل کی بنیادی خواہش ہے کہ بگٹی قبیلے کی مسلح چوکیوں اور عوام فورسز کو ان کی زمینوں سے ہٹایا جائے تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم رہے۔ اس تنازعے کے سبب عام قبائلی افراد خوف و ہراس میں مبتلا ہو چکے ہیں، ان کی روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے اور مقامی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

بلوچستان میں ایسے تنازعات نہ صرف قبائلی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ مجموعی طور پر صوبے کے استحکام کو بھی کمزور کر سکتے ہیں، جو بیرونی قوتوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ اگر اس تنازعے کو فوری حل نہ کیا گیا تو یہ ایک بڑے تصادم میں بدل سکتا ہے، جس کا نقصان صرف فریقین کو نہیں بلکہ پورے بلوچستان کو ہوگا۔

اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کی حکومت، قبائلی و سیاسی رہنما اور جرگہ نظام متحرک ہو کر اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کریں۔ بلوچ روایات میں جرگہ ہمیشہ ایک مؤثر ذریعہ رہا ہے، جس کے ذریعے پیچیدہ تنازعات کو بھی سلجھایا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار رہتے ہوئے فوری طور پر ایک جرگہ منعقد کرے، جہاں 1904 کے مری بگٹی قبائلی جرگہ اور موجودہ سرکاری ریکارڈ کی روشنی میں حدبندی کا فیصلہ کیا جائے۔ جرگے میں دونوں قبائل کے معتبرین کو شامل کیا جائے اور ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقین کے لیے قابلِ قبول ہو۔

مری قبیلے کا مؤقف واضح ہے کہ وہ لڑائی نہیں چاہتا، مگر اپنی زمینوں پر کسی بھی غیر قانونی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا۔ وہ امن کا داعی ہے، مگر اپنے حقوق اور بقا کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ اگر بگٹی قبیلے کے مسلح عناصر مری قبیلے کی زمینوں سے نہ ہٹے تو یہ تنازعہ شدت اختیار کر سکتا ہے اور قبائلی جنگ چھڑ سکتی ہے، جو پورے علاقے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ بلوچ قبائل کی روایات میں جنگ آخری راستہ ہوتی ہے، مگر ایک بار جنگ چھڑ جائے تو اسے روکنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔

حقیقی بھائی چارہ اور امن اسی میں ہے کہ سرفراز بگٹی اپنی قبیلے کے مسلح گروہوں کو قابو میں رکھیں اور طاقت کے بل بوتے پر قبضے کے بجائے انصاف اور قبائلی اصولوں کو اپنایا جائے۔ مری قبیلہ امن چاہتا ہے، مگر اپنی زمینوں پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کرے گا۔ اب یہ حکومت، جرگہ، اور قبائلی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مزید بگڑنے سے پہلے اس کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل نکالیں۔ اگر اس تنازعے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو یہ پورے بلوچستان کے لیے عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔