خضدار کا اندوہناک واقعہ
ٹی بی پی اداریہ
بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اندوہناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ایسے دن کم گزرتے ہیں جب جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف بلوچستان کے کسی علاقے میں احتجاج نہ ہو رہا ہو، کیونکہ ریاست نے بلوچ جنگِ آزادی کی انسداد کے لیے ایسی پالیسیاں مرتب کی ہیں جن کے اثرات سے پورا بلوچ سماج متاثر ہو رہا ہے۔
خضدار سے بی بی اسمہ جتک کا ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے اسکواڈ کے ہاتھوں اغوا بلوچستان میں ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں آزادی پسندوں کے خلاف فوج کا ساتھ دینے پر ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کو چوری، اغوا اور قتل کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جس کی تصدیق بلوچستان اسمبلی کے ارکان اپنی تقاریر میں متعدد بار کر چکے ہیں۔
پچھلے سال بارکھان میں سردار عبدالرحمن کھتران نے مری علاقے سے خواتین و بچوں کو اغوا کرکے اپنے نجی جیل میں قید رکھا۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے باعث وہ گرفتار کر لیے گئے، تاہم خاتون کے اغوا اور قتل کے ثبوت ہونے کے باوجود مقتدر قوتوں سے قربت کی وجہ سے انہیں بری کر دیا گیا، اور بعد ازاں الیکشن جتوانے کے بعد بلوچستان کی متنازعہ حکومت کا وزیر بنا دیا گیا۔
بلوچستان میں ریاستی ادارے انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، اور آئینی و قانونی اداروں سے مایوسی کے بعد لوگوں کے پاس احتجاج کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ بلوچستان میں حالیہ سیاسی ابھار کے بعد لوگ سیاسی مزاحمت کو حق حاصل کرنے کا واحد ذریعہ سمجھنے لگے ہیں، اور خضدار میں بی بی اسمہ جتک کی بازیابی اسی لیے ممکن ہو پائی کیونکہ ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں ان کے اغوا کے خلاف خاندان اور بلوچ قوم نے سخت احتجاج کا راستہ اپنایا۔
بلوچستان کے حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو بعید نہیں کہ مستقبل میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں، لیکن بلوچ قوم میں یہ یقین پختہ ہو رہا ہے کہ منظم احتجاج کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہے، اور سیاسی مزاحمت کے ذریعے قوم پر جاری جبر کے سلسلے کو ختم کیا جا سکتا ہے۔