انجیرہ اور عصمہ بلوچ کی دردناک داستان ۔ مقبول بلوچ

174

انجیرہ اور عصمہ بلوچ کی دردناک داستان

تحریر: مقبول بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو اس کا کوئی بھی خطہ دورِ حاضر کے یزیدوں کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں رہا۔ چاہے وہ جھالاوان ہو یا مکران، سراوان ہو یا رخشان، بلوچ جہاں بھی ہو، جس حال میں بھی ہو، جبر کی چکی میں پس رہا ہے۔ اسی طرح انجیرہ، جسے تختِ جھالاوان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، ظلم کی وہ المناک داستان اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے جسے بیان کرتے ہوئے دل دہل جاتا ہے۔

جب بلوچستان میں شورش کی آگ بھڑکی تو اس کی لپیٹ میں انجیرہ بھی آیا۔ یہاں کے باسیوں نے ایسی مصیبتیں جھیلیں جن کا تصور بھی روح کو لرزا دیتا ہے۔ 2014 میں ریاستی جبر نے انجیرہ کے لوگوں کو اپنے آبائی وطن سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ اپنی زمین، اپنے گھروں، اپنی تاریخ کو چھوڑ کر وہ خضدار، سندھ، کوئٹہ اور حب چوکی میں دربدر ہو گئے، مگر نہ ریاست نے ان کی داد رسی کی، نہ ہی کوئی قومی یا عوامی ادارہ ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکا۔

یہاں ایک سردار اور اس کے کارندوں نے وہ قیامت برپا کی جسے الفاظ میں قید کرنا ممکن نہیں۔ پہلے سردار دودا خان نے، اور پھر اس کے بیٹے نواب ثناء اللہ زہری نے ریاست کی مدد سے ظلم و جبر کی وہ تاریخ رقم کی جس میں انجیرہ کے 15 افراد کو ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز اور سرکاری اہلکاروں نے شہید کر دیا۔

ثناء اللہ زہری نے اپنی طاقت کے نشے میں انجیرہ کے رہائشیوں کے گھروں کو بلڈوز کر دیا، اور آج بھی سیٹلائٹ تصاویر میں ان کے ملبے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ظلم کے بعد بے شمار خاندان دربدر ہو گئے، مگر ظالموں کے ہاتھ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔

“ہم نے ظلم سے بچنے کے لیے ہجرت کی تھی، مگر ظلم ہمارے تعاقب میں رہا!”

عصمہ بلوچ ایک عرصے سے ظلم کا شکار رہی ہیں۔ 2014 میں ان کے منگیتر، عبدالسلام، جو بلوچستان انجینئرنگ یونیورسٹی، خضدار میں فائنل ایئر کا طالبعلم تھا، کو اسی ڈیتھ اسکواڈ نے قتل کر دیا۔

یہ قتل اس وقت ہوا جب ڈیتھ اسکواڈ کے ایک رکن نے زبردستی عصمہ سے شادی کرنے کی کوشش کی، اور جب ان کے خاندان نے انکار کیا، تو عبدالسلام کو شہید کر دیا گیا۔ اس کے بعد ظالموں نے دھمکی دی کہ اگر کسی نے عصمہ سے شادی کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔

اس واقعے کے بعد عصمہ کا خاندان مسلسل نقل مکانی پر مجبور رہا۔ تقریباً ایک دہائی تک وہ ان قاتلوں سے چھپتے رہے، اپنی جان بچانے کے لیے جگہ جگہ پناہ لینے پر مجبور ہوئے، مگر ظالموں کا سایہ ان کے تعاقب میں رہا۔

بالآخر، 5 فروری 2024 کو، ان کے ساتھ وہ قیامت ٹوٹ پڑی جس نے بلوچ روایات، اسلامی تعلیمات، اور انسانی اقدار کو روند کر رکھ دیا۔ عصمہ بلوچ کو ان کے بھائی، بہنوں اور ماں کے سامنے بندوق کی نوک پر اغوا کر لیا گیا، اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ نواب ثناء اللہ زہری کے نائب کا بھائی، ظہور جمالزئی تھا۔

ظہور جمالزئی اور رحیم بخش جمالزئی بدنامِ زمانہ قاتل اور درندہ صفت مجرم ہیں، جو خضدار اور اس کے گرد و نواح میں درجنوں افراد کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ یہ دونوں ایک خونخوار ڈیتھ اسکواڈ چلاتے ہیں جو ریاست اور بااثر شخصیات کی سرپرستی میں نہتے بلوچوں پر ظلم ڈھانے میں مصروف ہے۔

رحیم بخش اور ظہور جمالزئی، نواب ثناء اللہ زہری کے زیرِ سایہ قتل و غارت گری میں ملوث ہیں، جو اس وقت بلوچستان اسمبلی کے رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ہیں، جبکہ ان کے بھائی، میر نعمت اللہ زہری، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے سابق رکن رہ چکے ہیں۔

رحیم بخش نے اپنے جرائم کا اعتراف خود اپنی ویڈیوز میں کیا ہے، جن میں وہ اپنے سگے چچا زاد بھائی، ودیرہ اکبر جمالزئی، کے قتل کا فخریہ اعلان کرتا ہے۔ اس ظالم نے پہلے اکبر جمالزئی کے گھر کو آگ لگائی، وہاں موجود خواتین کو اغوا کیا، اور اس کی لاش کو بے دردی سے چھوڑ کر چلا گیا۔

رحیم بخش اور ظہور کی درندگی کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔

• انہی قاتلوں نے رمضان کے مقدس مہینے میں زہری کے علاقے میں ایک مسجد میں عبادت میں مصروف 8 افراد کو قتل کیا۔

• یہی مجرم میر ریاض زہری اور نواب امان اللہ خان زہری کے قتل میں بھی ملوث ہیں، جو نواب ثناء اللہ زہری کے حکم پر انجام دیے گئے۔

• اگر ان کے قتلِ عام کی فہرست مرتب کی جائے تو شاید کبھی ختم نہ ہو!

یہ دونوں قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں، نواب ثناء اللہ زہری اور میر نعمت اللہ زہری کے پہلو میں نظر آتے ہیں، اور مسلسل مزید خون بہانے میں مصروف ہیں۔

یہ ہجرت بھی انجیرہ کے عوام کے دکھوں کا مداوا نہ بن سکی۔ پہلے ان کے لوکل بلاکس ختم کیے گئے، پھر سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ روکا گیا، اور پھر ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ مگر وہ کہتے ہیں ناں، جس کا کوئی نہیں ہوتا، اس کا اللہ ہوتا ہے!

اور جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے تو وہ بغاوت کو جنم دیتا ہے۔

• انجیرہ آج بھی اپنے لہو سے لکھی جانے والی داستانوں کا گواہ ہے۔

• یہاں کے لوگ آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

• یہاں کے شہداء کی روحیں آج بھی انصاف کی منتظر ہیں۔

کیا کوئی ہے جو ان کا درد محسوس کرے؟

کیا کوئی ہے جو اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے؟

یا تاریخ ایک بار پھر خاموش رہے گی؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔