امریکہ غزہ پر ’قبضہ‘ کر کے اس کی تعمیرِ نو کر سکتا ہے – امریکی صدر

67

منگل کے روز اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔

نتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت کے دوران وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر ’اس پر حقیقی معنوں میں کام‘ کر سکتا ہے جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔

امریکی صدر نے بنا کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ فلسطینی صرف اسی لیے غزہ واپس جانا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔ انھوں نے غزہ کو کسی تباہ شدہ علاقے سے تشبیہ دی۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم پہلے جیسے حالات کی طرف واپس نہیں جاسکتے ورنہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایک خود مختار علاقے کا انتظام سنبھالنے کی بات کر رہے ہیں تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا وہ غزہ پر طویل مدتی قبضے کی سوچ رکھتے ہیں جس کی قیادت امریکہ کرے گا۔

ان کہنا تھا کہ ’ہم اس علاقے کو اپنی زمین کی طرح اپنائیں گے، اس کو ترقی یافتہ بنائیں گے، ہزاروں نوکریاں پیدا کریں گے، یہ واقعی بہت شاندار ہوگا۔‘

صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ سب کو ان کا یہ آئیڈیا بہت پسند ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس تجویز کے بارے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا آئیڈیا ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ غزہ کا ایک مختلف مستقبل دیکھتے ہیں۔

جنگ بندی معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیلی اور امریکی مغویوں کو واپس لانے میں مدد کی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی دوبارہ شروع کر دی ہے جو بائیڈن انتظامیہ نے بند کردی تھی۔

نتن ہاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ جیت کر اس جنگ کو ختم کر دے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ کی بھی جیت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم امن جیتیں گے اور مشرق وسطیٰ کا ایک نیا مستقبل ترتیب دیں گے۔

ٹرمپ بنا سوچے سمجھے چیزیں کہہ رہے ہیں – تجزیہ کار

مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو برائن کٹولس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکی قبضے کا بیان بنا سوچے سمجھے دیا ہے اور امریکی صدر کا اس بارے میں کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں وہ یہ سب باتیں بنا سوچے سمجھے کر رہے ہیں۔ واقعتاً اس کے پیچھے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کوئی منصوبہ ہے بھی تو یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا آج کے مشرقی وسطی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور اس بارے میں فلیسطینیوں یا اس کے ہمسایہ ممالک جیسے کہ مصر اور اردن سےکوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔

کٹولس کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات دے کر ٹرمپ توجہ کا مرکز بننا چاہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی ٹرمپ نے ایسے ہی بیانات دیے تھے جس کا مقصد بحث شروع کرنا تھا۔

’مسئلہ یہ ہے کہ ان باتوں سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس سے ہمیں ان کے مضحکہ خیز بیانات پر توجہ مرکوز دینے کے لیے کچھ وقت اور توانائی مل جاتی ہے، لیکن اس سے فلسطینیوں یا اسرائیلیوں کے لیے کوئی نئی حقیقت نہیں بنتی۔‘

بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار پال ایڈمز لکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان ان کے اپنے معیار سے بھی کافی سر چکرا دینے والا تھا۔

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ غزہ کے بارے میں ان کی تجویز کو بہت حمایت حاصل ہے تاہم مشرقِ وسطیٰ میں اس کے آثار نظر نہیں آتے۔

صدر ٹرمپ نے فلسطینی علاقے مغربی کنارے کے مستقبل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ وہاں اسرائیل کی خودمختاری کی توثیق کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اگلے چار ہفتوں میں اس بارے میں اعلان کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا دو ریاستی حل سے کوئی تعلق نہیں۔

کیا اس میں سے کچھ بھی واقعتاً ہوگا؟ ٹرمپ کے ہوتے اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا ممکن نہیں۔

انھوں نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں بھی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی خارجہ پالیسی کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ دوبارہ ایسا ہی کچھ کرنے لگے ہیں۔

سعودی عرب کا فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے سے انکار

سعودی عرب نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو کے درمیان منگل کے روز ہونے والی ملاقات کے بعد سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ان کا فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق موقف اٹل ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پر کسی قسم کی بات چیت نہیں ہو سکتی۔

سعودی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی ریاست کا جائز حق دیے بغیر دیر پا امن ممکن نہیں۔

اس سے قبل وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امید ظاہر کی تھی کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات بحال کرنے کی اپنی کوششوں کو دوبارہ شروع کرنا چاہیں گے۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ امریکہ غزہ کی پٹی کا انتظام سنبھال کر ’اس پر حقیقی معنوں میں کام‘ کر سکتا ہے جیسے کہ ایسے بموں کو ہٹانا جو پھٹے نہیں ہیں، غزہ کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو دوبارہ متحرک کرنا۔