شہید الطاف جاڈا ایک گمنام سپاہی – دودا بلوچ

165

شہید الطاف جاڈا ایک گمنام سپاہی

تحریر: دودا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید الطاف جاڈا کی داستان ایک غیر معمولی قربانی اور عزم کی مثال ہے، جو بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ الطاف جاڈا، جو میرے کزن ہونے کے ساتھ ساتھ میرے نظریاتی ساتھی اور دوست بھی تھے، نے اپنی زندگی میں کئی چیلنجز کا سامنا کیا۔ ہم ایک ہی گاؤں میں بڑے ہوئے، ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی، اور وقت کے ساتھ ہمارا رشتہ مزید مضبوط ہوتا گیا۔

دو فروری 2022 کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے مجید بریگیڈ نے پنجگور اور نوشکی میں ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملے کیے۔ اسی دن، پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکاروں نے الطاف جاڈا کو تربت کے علاقے تجابان سے اغوا کر لیا اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ 4 فروری 2022 کو بالگتر میں ایک جھڑپ کے دوران شہید نصیب کی شہادت ہوئی، اور اسی مقام پر الطاف جاڈا کی لاش بھی پھینک دی گئی۔ پاکستانی فوج نے ان کی لاش کے قریب ایک کلاشنکوف رکھ کر انہیں مسلح مزاحمت کار کے طور پر پیش کیا، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس حملے میں شامل نہیں تھے۔

اس دن، میں نے 17 شہداء کی لاشوں کی تصاویر دیکھیں، جن میں الطاف جاڈا بھی شامل تھے۔ ان کی قربانی ہمیں جدوجہد کے نئے مرحلے میں داخل ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے لیے شہید ہونا ہر بلوچ کا فرض ہے، اور الطاف جاڈا نے یہ فرض ادا کر کے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی۔

آج 4 فروری الطاف جاڈا کی تیسری برسی ہے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ شہداء کی راہ ہمارا راستہ ہے، اور آزادی ہماری منزل ہے۔ ہم آخری دم تک لڑتے رہیں گے، ملتے رہیں گے کبھی پہلے، کبھی بعد میں، لیکن ضرور ملیں گے۔

الطاف جاڈا کا نظریہ، آزادی کا خواب، اور قومی شعور ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔