ہم کرب سے گزرے ہیں کرامات سے پہلے – سعیدہ حمید

194

ہم کرب سے گزرے ہیں کرامات سے پہلے

تحریر: سعیدہ حمید

دی بلوچستان پوسٹ

زندگی میں نشیب و فراز، عروج و زوال شاید ہر انسان کے حصے میں ازل سے ابد تک ساتھ رہتے ہیں۔ کچھ لوگ مشکلات سے تنگ آ کر ان کے آگے سر خم کر لیتے ہیں، جبکہ کچھ تمام مصائب سے لڑتے ہوئے کندن بن جاتے ہیں۔

میرے یہ الفاظ شاید اس باہمت انسان کی زندگی اور اس پر گزرے رنج و الم کی مکمل ترجمانی نہ کر سکیں، مگر یہ تحریر اس امید کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ یہ پڑھنے والوں تک پہنچ جائے۔

کیسا لگے گا آپ کو اگر آپ ایک چھوٹے سے گاؤں میں زندگی گزار رہی ہوں، جہاں آپ کو زندگی کی تمام بنیادی ضرورتیں بآسانی میسر ہوں، اور سکون کا ایسا عالم ہو کہ ہر سانس پر آپ پروردگار کا شکر بجا لاتے ہوں؟

اور پھر ایک دن اچانک، آپ کی وہ چھوٹی سی بستی، وہ چھوٹی سی دنیا اجڑ جائے، آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ کا گھروندہ مسمار کر دیا جائے، اور آپ سے آپ کی دنیا ہی چھین لی جائے؟

یہ کہانی ایک ایسے زندہ کردار کی ہے جو ایک ماں، ایک بہن، ایک بیٹی اور ایک بیوی ہے۔ جس پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے گئے، مگر اس نے جہدِ مسلسل سے ہر جبر اور ہر ظلم کا بہادری سے مقابلہ کیا۔

یہ کہانی ہے فاطمہ بلوچ کی، جس کی زندگی کبھی خوشحال اور پُرسکون تھی۔ اس کا ایک چھوٹا سا گھرانہ تھا، شفیق باپ، محبت کرنے والے بھائی، اور ایک ہمسفر شوہر سب اس کے ساتھ تھے۔
مگر بلوچستان کی موجودہ صورتحال، ریاستی جبر اور تشدد نے ہر گھر میں ایک فاطمہ پیدا کر دی ہے، جو اپنی جدوجہد سے خاموش رہنے کے بجائے اپنے کنبے کو سنبھالے، مزاحمت کر رہی ہے۔

2 فروری فاطمہ بلوچ کی زندگی میں ایک سیاہ دن، ایک ماتمی دن ہے۔ ایک دہائی گزرنے کے باوجود وہ اس دن کو بھلا نہیں سکتی۔ اسی دن، فاطمہ بلوچ کے والد محترم حاجی رمضان، جو ایک معروف تاجر تھے، کو ریاست نے شہید کر دیا۔ یوں فاطمہ سے اس کے شفیق والد کا سایہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھن گیا۔

والد کی شہادت سے قبل، چھوٹے بھائی کی جبری گمشدگی کا صدمہ وہ پہلے ہی سہہ رہی تھی۔ فاطمہ کے 14 سالہ بھائی کو اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

24 اکتوبر کو اس کی اذیت گاہ سے خون میں لت پت لاش ملی۔۔۔
ایک بے جان لاش، جو مظالم کی ایک اور داستان تھی۔۔۔

وقت گزرنے کے ساتھ یہ زخم مزید گہرے ہوتے گئے۔ خضدار سے زہری، اور پھر زہری سے کراچی کا سفر انتہائی تکلیف دہ تھا۔

اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے فاطمہ بلوچ کو اپنے بچوں کے ساتھ اپنا گاؤں، اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔

وقت اپنی رفتار کے ساتھ کروٹ بدلتا رہا، مگر ریاستی جبر عروج پر تھا۔ بلوچستان بھر میں شاید ہی کوئی ایسا گھر تھا جو اس جبر سے متاثر نہ ہوا ہو۔
اور پھر 10 اپریل 2021 کو فاطمہ بلوچ کے شوہر عبدالحمید زہری کو، رات گئے، خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبراً گھر سے گن پوائنٹ پر لاپتہ کر دیا۔
وہ بندوق برداروں کے آگے چیختی، چلاتی، لڑتی رہی، مگر وہ عبدالحمید زہری کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
یہی وہ لمحہ تھا جب فاطمہ بلوچ کی سیاسی مزاحمت کا آغاز ہوا۔

اب وہ روزانہ اپنے بچوں کے ساتھ کراچی پریس کلب، کوئٹہ اور ہر احتجاجی مظاہرے اور دھرنے میں اپنے شوہر کی تصویر اٹھائے نظر آتی۔
اسی دوران، فاطمہ بلوچ کے دوسرے بھائی کو بھی دبئی میں پاکستانی اداروں نے دبئی حکومت کی مدد سے گرفتار کر لیا، اور یوں فاطمہ کو ایک اور صدمہ سہنا پڑا۔

بھائی کی گمشدگی، پھر عدالت میں پیشی، اور اس کے بعد دوبارہ کراچی جیل سے اغوا کرنے کی کوشش— یہ سب ناقابلِ برداشت تھا۔
جیل کے دروازے پر، اپنے بچوں کے ساتھ، بندوق برداروں کے سامنے ڈٹ جانا، گولیوں اور بندوقوں کے سائے میں مزاحمت کرنا، فاطمہ بلوچ کی بہادری اور استقامت کی سب سے بڑی مثال ہے۔

اور پھر، فاطمہ اپنے بھائی کو دوبارہ موت کے منہ سے کھینچ لانے میں کامیاب ہو گئی۔
وہ اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے بھی ثابت قدم رہی۔

بلوچستان میں فاطمہ بلوچ جیسے مزاحمتی کردار گمنام ہو کر زندگی گزار رہے ہیں، مگر جب اپنے حقوق کی بات آتی ہے، تو یہ لوگ ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک سے بھی ٹکرا جاتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔