نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے ۔ (حصہ ششم) ۔ رامین بلوچ

111

نیشنل پارٹی کا دورہ چین، غداری اور لوٹ مار کے معاہدے )حصہ ششم ( 

تحریر: رامین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چین کی ترقی اور معاشی نمو کی بنیاد قبضہ گیریت، لوٹ مار، اور استحصالی پالیسیوں پر مشتمل ہے۔ ایک طرف چین نے نہ صرف چینی نیشنلزم کا راستہ خیرباد کہا، بلکہ سوشلسٹ نظریات کی بھی فاتحہ خوانی کی۔ اس کے علاوہ چین نے اپنی معاشی ترقی کے دوران کم قیمت ورک فورس یعنی سستی مزدوری کا فائدہ اٹھا کر، دھوکہ دہی، ہیرا پھیری، اور مصنوعات کی کم قیمت دستیابی کی خاطر غیر معیاری اور غیر پائیدار مصنوعات بنانے، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، اور جعل سازی جیسے حربوں سے بھرپور استفادہ کیا، جس نے اس کی صنعتوں کو عالمی مارکیٹ میں مسابقتی برتری فراہم کی۔

سستی محنت کی اس دستیابی نے اس کے پیداواری اخراجات کو کم کرنے میں مدد دی۔ اس سے چین کی مصنوعات کی قیمتیں کم رہیں اور نتیجتاً چین نے عالمی مارکیٹ میں سستی مصنوعات فراہم کر کے بڑا مارکیٹ شیئر حاصل کیا، جو اس کی اقتصادی طاقت میں اضافے کا باعث بنا۔ چین نے عالمی سطح پر اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مختلف حکمت عملیوں اور حربوں کا استعمال کیا، جن میں افریقی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے سرمایہ کاری، قرضوں، اور تجارتی معاہدوں کا استعمال شامل ہے۔ ان ممالک میں سڑکیں، بندرگاہیں، ہوائی اڈے، اور ریلوے لائنوں کی تعمیر کی گئی۔ ان منصوبوں کے بدلے چین نے طویل المدتی سامراجی مفادات حاصل کیے اور ان ممالک پر اپنی سیاسی و اقتصادی گرفت مضبوط کر کے انہیں قرضوں کے جال میں جکڑا۔

چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) بھی اسی سامراجی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد ایشیا، یورپ، اور افریقہ کے مابین اقتصادی روابط کو مضبوط بنانا ہے۔ چین اس منصوبے کے ذریعے اپنی سیاسی، مالی، اور فوجی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ چین نے کئی ممالک میں اپنی فوجی اڈوں کی موجودگی کو بڑھایا ہے اور اہم بندرگاہوں پر اسٹریٹجک کنٹرول حاصل کیا ہے۔ (BRI) ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ عسکری منصوبہ ہے۔

اس کے علاوہ، چین بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گوادر بندرگاہ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنی معاشی و فوجی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ اقدام نہ صرف بلوچ وطن کی آزادی اور اس کی متنازع حیثیت کے خلاف ہے بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ چین کے یہ سامراجی حربے ایک سنگین جغرافیائی و سیاسی مسئلہ ہیں، جس کے خلاف بلوچ طویل عرصے سے مزاحمت کر رہے ہیں۔ چین کی گوادر بندرگاہ پر قبضے کی خواہش غیر ملکی مداخلت اور سامراجی عزائم پر مبنی ہے، جسے پنجابی ریاست اور چینی حکومت بلوچ عوام کی مرضی اور رضامندی کے بغیر آگے بڑھا رہے ہیں۔

چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر اپنی فوجی شراکت داری کو گوادر بندرگاہ اور سیندک کے معدنی ذخائر کو لوٹنے کے لیے بڑھاوا دیا ہے، جو چین کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور جنگی شراکت داری کی واضح علامت ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1970 کی دہائی کے آخر میں ڈینگ ژیاؤ پنگ کی قیادت میں چین نے ایک مکمل سامراجی روپ اختیار کیا تھا، اور یہ تسلسل آج بھی شی جن پنگ کی قیادت میں جاری ہے، جسے “چینی خواب” (Chinese Dream) کا نام دیا گیا ہے۔

چین کی قبضہ گیرانہ پالیسیوں پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ چین عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر سیاسی، اقتصادی، اور فوجی اقدامات کر رہا ہے۔ چین کی یہ پالیسیاں قبضہ گیری اور توسیع پسندی کے طور پر دیکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، چین “سنکیانگ” پر دعویدار ہے، جو چین کا کوئی فطری یا جغرافیائی حصہ نہیں بلکہ دراصل “مشرقی ترکستان” ہے، جسے انیسویں صدی میں چین نے “سنکیانگ” کا نام دیا تھا۔

1750 میں چنگ خاندان نے اس خطے پر قبضہ کیا اور 1884 میں اس خطے کا نام بدل کر “سنکیانگ” رکھ دیا۔ سنکیانگ کا یہ نیا نام چینی سامراجی پالیسی اور نوآبادیاتی تسلط کی علامت ہے۔ اس خطے کی جغرافیائی اور ثقافتی حیثیت چین سے بالکل مختلف ہے۔ وہاں ایغور قوم آباد ہے اور اس وقت وہاں سیاسی اور مسلح جدوجہد کے ذریعے آزادی کی تحریکیں جاری ہیں۔ ترکستان اسلامک پارٹی، جو ایغور قوم کی آزادی کے لیے چین کے خلاف سرگرم ہے، سیاسی اور عسکری سطح پر جدوجہد کر رہی ہے۔

مشرقی ترکستان، جس پر چین نے نوآزادی کے بعد مکمل کنٹرول حاصل کیا، 16,64,897 مربع کلومیٹر پر مشتمل ایک الگ ملک ہے۔ اگر یہ آزاد ہو جائے تو بلوچ وطن کی طرح دنیا کا نواں بڑا ملک بن سکتا ہے۔

ایغور انسانی حقوق کی کارکن “رحیمہ محموت” نے گزشتہ سال بی این ایم کی پانچویں بلوچستان کانفرنس میں کہا تھا کہ “سی پیک ایغور نسل کشی اور بلوچستان کے استحصال کا سیاہ منصوبہ ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ دونوں خطے وسائل سے مالامال ہیں، جنہیں چین اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ رحیمہ محموت نے اپنی تقریر میں زور دیا کہ “ہماری جدوجہد مشترکہ ہے اور ہمیں چین کے سامراجی عزائم کے خلاف بیداری پیدا کرنی چاہیے۔”

چین کے موجودہ سامراجی عزائم سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ اس وقت چین کا عالمی عروج ایک حقیقت ہے، لیکن عالمی طاقتوں کے مقابلے میں یہ قلیل المدتی ہو سکتا ہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ کے پاس جدید فوجی ٹیکنالوجی اور عالمی سطح پر رسائی کی طاقت موجود ہے، جو چین کو چیلنج کر سکتی ہے۔

یہ تاریخ کا سبق ہے کہ سامراجی طاقتیں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتیں۔ اگر چین اپنی سامراجی اور توسیع پسندانہ پالیسیاں جاری رکھتا ہے تو اس کے زوال میں دیر نہیں لگے گی۔

(جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔