ایرانی فورسز کے 9 بارڈر گارڈز کی لاشیں 16 سال بعد پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان کے صحرا سے برآمد کرکے ایران واپس بھیج دی گئیں۔
یہ واقعہ جون 2008 میں پیش آیا تھا، جب جنداللہ نامی مسلح گروپ نے ایران کے زیر انتظام بلوچستان کے علاقے سراوان میں شمسر سرحد پر ایرانی بارڈر گارڈز کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اس وقت جنداللہ گروپ کی قیادت عبدالمالک ریگی کے ہاتھوں میں تھی، جس نے ایران کے یرغمال بنائے گئے فوجیوں کی رہائی کے بدلے 200 افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، ایرانی حکام کے انکار کے بعد جندہ اللہ نے ان فوجیوں کو ہلاک کرکے پاکستانی کے زیر انتظام بلوچستان کے کسی صحرہ میں دفن کردیا تھا۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق، مذکورہ ایرانی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشیں پاکستان کے صحرا میں دفن کر دی گئی تھیں۔ اب پاکستان نے ایرانی حکام کے مطالبے پر نو لاشیں ایران کے حوالے کر دی ہیں۔
ایرانی حکام نے لاشوں کی حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی الوداعی تقریب 25 جنوری کو مشہد میں روضہ امام رضا علیہ السلام میں منعقد کی جائے گی، جس کے بعد اگلے روز تدفین کی تقریب ہوگی۔
جنداللہ کون ہے؟
جنداللہ گروپ 2002 میں پاکستان میں تشکیل پایا تھا اور ایران کے زیر انتظام بلوچستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔
اس گروپ نے ایران میں متعدد حملے کیے ہیں، جن میں 2006 میں 22 ایرانی شہریوں کی ہلاکت، 2007 میں ایک فوجی قافلے پر حملہ جس میں 18 اہلکار مارے گئے، 2008 میں 16 ایرانی پولیس اہلکاروں کا اغوا اور ہلاکت، 2009 میں 12 پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور اسی سال زاہدان کی ایک مسجد میں خودکش حملے میں 25 افراد کی ہلاکت شامل ہیں۔
جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کو 2010 میں ایران نے حراست میں لے کر پھانسی دے دی تھی، جس کے بعد جنداللہ کو ختم کرکے مختلف نئے گروہ تشکیل دیے گئے، جو آج بھی مغربی بلوچستان میں ایرانی حکومت اور فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا کے مطابق، لاشوں کی برآمدگی اور حوالگی کا یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس ہفتے کے آغاز میں ایرانی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے میں تعاون اور مسلح گروپوں کے خلاف فوری کارروائیوں کے لیے انٹیلی جنس کے تبادلے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے ملک کو سرحدوں پر مسلح گروپوں کی کاروائیوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے، اور دونوں ممالک مشترکہ مسائل پر اپنی تفہیم بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔
نومبر میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی کہا تھا کہ ایران اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنے تعاون کو بڑھانے کے خواہاں ہیں اور مسلح گروپوں کے خلاف اپنی جنگ کو مزید تیز کرنا چاہتے ہیں۔