شہید غنی عرف بلال جان: ایک ہنستا ہوا چہرہ – مش زادہ

153

شہید غنی عرف بلال جان: ایک ہنستا ہوا چہرہ

تحریر: مش زادہ

دی بلوچستان پوسٹ

آج میں ایک ایسے ساتھی سرمچار کے بارے میں لکھ رہا ہوں جو اس وقت ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ وہ سرزمین کے ان شہیدوں کے ساتھ جا ملا ہے جو وطن کے عشق میں اپنی یادیں چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو گئے۔

شہید عبدالغنی عرف بلال سے میری پہلی ملاقات ایک ایسی جگہ پر ہوئی جہاں ہم ٹریننگ حاصل کر رہے تھے۔ ان دنوں شہید بلال بھی وہاں آئے اور کچھ دنوں بعد وہ بھی ہمارے ساتھ ٹریننگ حاصل کرنے میں شامل ہو گئے۔ وہ ایک جفاکش، مخلص اور خوش گفتار ساتھی تھے۔ اپنی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے اپنی ٹریننگ جلد مکمل کی اور انہیں ایک مشن کے لیے بھیج دیا گیا، جس کے باعث ان کے ساتھ میرا رابطہ نہ رہ سکا۔

کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ شہید عبدالغنی عرف بلال بولان میں ایک جھڑپ کے دوران دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔ میرے دوست، آپ کے خون سے لت پت بدن اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچ قوم کو موت قبول ہے لیکن غلامی نہیں۔ زمین کی محبت میں چمکتی ہوئی آنکھیں، مسکراہٹ بھرا چہرہ، سادگی اور عاجزی والا مزاج، بولان کی حسین وادی کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔

سرزمین کے اس فرزند نے بولان کی حسین وادیوں کو اپنے بہتے ہوئے خون کے ہر قطرے سے مزید خوبصورت اور یادگار بنایا۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کو جتنا بھی عمدہ بیان کرنا چاہوں، نہیں کر سکتا۔ بولان کی سُنسان فضائیں، مرجھائے ہوئے پھول اور پہاڑوں کی اونچی چوٹیاں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔

میرے وطن کے ہر شہید کی فکر، جدوجہد اور آزاد مادرِ وطن کا خواب ہمارے دل کی دھڑکن میں پیوست ہے۔ میرے وطن کے عشق میں شہید ہونے والے ساتھیوں، آپ کے بہتے ہوئے خون کے ہر قطرے سے نئے چراغ روشن ہوں گے، اور وہ آپ کے آزاد مادرِ وطن کے خواب کو سچ ثابت کریں گے۔

میرے سرزمین کے شہیدو! آپ نے جس بہادری سے لڑ کر اس زمین کا قرض ادا کیا، اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ آپ کے بہتے خون نے سرزمین کے نوجوانوں کو جوش و جذبے کے ساتھ جگایا۔

اے میرے ہم فکر ساتھیوں! آپ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک داستان بن چکے ہیں۔ آپ کی شہادتوں نے قوم کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اس مشکل راہ میں آزادی کی امید اور حوصلہ دیا۔

میرے وطن کے فرزند خزاں کے موسم میں درخت کے ان پتوں کی طرح ہیں جو درخت سے جدا ہو کر اسے مزید مضبوط، ہرا بھرا اور نئے پتوں کے لیے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح میرے وطن کے شہیدوں نے بھی شہادت کو خوشی خوشی قبول کیا تاکہ آنے والی نسلیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوں اور نوری نصیر خان کے فرزند اذیت خانوں میں نہ ہوں، بلکہ اپنے سرزمین کے خود مالک بنیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔