قومی غلامی سے نجات، مضبوط سیاسی اداروں سے وابسطہ – ڈاکٹر سلیمان بلو چ

497

قومی غلامی سے نجات، مضبوط سیاسی اداروں سے وابسطہ

(ڈاکٹر سلیمان بلو چ )جو نیئر وائس چیئرمین بی ایس او آزاد

دی بلوچستان پوسٹ

زندہ اور باشعور سماج ہمیشہ علمی بحث و مباحثوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، خود کو جاننے کی طلب اورجستجواگر ختم ہو جائے تو معاشرے جمود کا شکار ہوکر زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور وہ سماج یا معاشرہ چلتے پھرتے زندگی کی رمق سے محروم آدمیوں کے ہجوم کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔

جس موضوع پر آج میں بحث چھیڑنے کا طلبگار ہوں ایسا نہیں کہ آج سے پہلے اس موضوع پر کبھی لکھا نہیں گیاہے، مگر یہ ایسا موضوع ہے جس پر زیادہ سے زیادہ بحث کرنا گویا مستقبل کے سنہرے خوابوں کو بہتر سمت دینا ہے۔ کیونکہ بلوچ سماج میں تعلیم کی کمی اور تعلیمی اداروں میں نوآبادیاتی تعلیمی نظام کافی حد تک ہمارے معاشرے اورمعاشرے کی ذہنیت پر حاوی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی قابض ریاست کا کسی مقبوضہ قوم یا کلاس کے لیئے علمی و شعوری بانجھ پن قابض کے دیر پا قبضہ گیر پالیسیوں کا حصہ ہوتا ہے۔ کیونکہ نو آبادیاتی نظام تعلیم قوموں کو ذہنی اور شعوری طور پر بانجھ بنانے کے لئے تشکیل میں لائے جاتے ہیں جو کہ صرف مقبوضہ اقوام کے لئے مختص کئے جاتے ہیں، تاکہ ان اداروں سے باشعور سیاسی و سماجی ورکر،دانشور اورفلاسفر نکلنے کے بجائے نوکری پیشہ ذہنیت کے چلتے پھرتے کل پرزے نکلیں جو نوآبادیاتی مشین میں جڑ کر اپنے ہی قوم و سماج کے استحصال میں معاون کاراورمددگار ثابت ہوں۔

عموماً دیکھا گیاہے کہ نوآبادیاتی نظام تعلیم سے فارغ شدگاں محض چند ٹکوں کے عوض کسی جانور کی طرح زندگی بھر کسی نوکری پر جْت جاتے ہیں۔ انہیں جواب سننے اور اس پر عمل پیرائی کی تربیت ملتی ہے نہ کہ سوال کرنے، سوچنے اور جستجوکی۔ایسے نظام میں لوگوں کی اکثریت کو نہ معاشرے اورسماج کے بقا کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے قوم و سرزمین سے اپنے رشتے کا ادراک۔ ہندوستا ن انگریزکا لونی تھا تو نوآبادیاتی نظام تعلیم کے خالق لارڈ میکالے نے کہاتھا کہ ’’ہم ایسے لوگ پیداکریں گے جو شکل سے ہندوستانی اور ذہنیت کے اعتبار سے انگریز ہوں‘‘یعنی ایسی ذہنیت جس میں انکار،سوال او رجستجو کے بجائے محض قبولیت ہی ہو۔ ہر کالونی کی طرح مقبوضہ بلوچستان میں پاکستان کا تعلیمی نظام بھی ایک نو آبادیاتی نظام تعلیم ہے لیکن مشاہدہ یہی کہتاہے پاکستان دوسرے قبضہ گیرو ں کے برعکس اس نوآبادیاتی نظام سے بھی بلوچ کو محروم رکھنا چاہتاہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بلوچ قوم میں قومی پرستی اور وطن دوستی کے جذبات اتنے موثر ہیں کہ پاکستان پورے تاریخ میں انہیں اپنے جبر،نوآبادیاتی تعلیم او ر حربوں سے مانند نہیں کرسکاہے، اس لیئے تعلیم کے باب میں پاکستان ہمیں دوسرے قابضین سے بھی دو ہاتھ آگے نظرآتا ہے، پہلی بات یہ ہے کہ بلوچستان میں اکثر علاقوں میں تعلیمی ادارے وجود ہی نہیں رکھتے اور جہاں پر تعلیمی اداروں کے نام پر پتھر اور اینٹوں سے بنے چار دیواریاں موجود بھی ہیں، تو وہ فوجی کیمپس، چیک پوسٹس اور مذہبی مدرسوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں اور جتنے بھی کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں ان کے سربراہاں بھی ریٹائرڈ آرمی افسران ہیں، جو کہ قبضہ گیریت کا عملی نمونہ ہے، تاکہ ذہنوں کی تربیت براہ راست فوج کے نگرانی اور ان کے بنائے گئے پیمانوں میں ہو اور یہ بات یقینی ہو کہ اس تعلیمی نظام کے پیداوارغلام ہی رہیں اور ان میں بغاوت اورانکارکا عنصر پنپ نہ پائے۔

اس لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بلوچستان کے بڑی یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے کم اور فوجی بیرک زیادہ نظر آتے ہیں جن کا کسی مہذب ملک یا سماج میں تصورہی نہیں کیا جاسکتاہے۔ اسی تناظر میں قابض اور اسکے ہمنوا ہمیشہ یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ بلوچ سماج یا اداروں کو بانجھ بنا کر ان کے مقدرمیں غلامی ہی لکھی جائے، یا ان تعلیمی اداروں میں موجود نظریہ رکھنے والے نوجوان نسل کوکبھی بھی مجتمع ہونے کا موقع نہیں دیاجائے، بلکہ انہیں بہرصورت منتشر کیا جائے اس پالیسی کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں خواہ جتنے بھی نوجوان جانیں لینی پڑیں وہ اس سے قطعاً گریز نہیں کریں گے، یہی غلام اور یہی دستورِ نوآبادیاتی نظام ہے۔

مگر اسے بلوچ قوم کی بد بختی کہیں یا غلامی کا شاخسانہ کہ بلوچ کے نامی گرامی ہستیاں نوجوانوں کی قوت کو یکجاہ و یکمشت کرنے میں بڑی رکاوٹ رہے ہیں، ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ نوجوان ان کے سیاسی مقاصد کے حصول میں محض بیساکھی ہی رہیں، وہ کسی تنظیم کی صورت میں فیصلہ کن قوت نہ بن پائیں، میں اس عمل کو قابض کے معاونت کے مترادف ہی سمجھتاہوں، اگر یہ سوچ یا فلسفہ جاری رہا تو بلوچ نوجوانوں کی منظم طاقت یا منظم سوچ مسلسل ٹوٹتااور بکھرتا رہے گا، جسے دوبارہ جڑنے میں وقت درکار ہوگا، ماضی کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اور ہمارا سیاسی سفر بھی۔

قارئین میرا موضوع بلوچ طلبا تنظیم بی ایس او ہے، بلوچ نوجوانوں کی نظریاتی اور فکری تربیت کا سب سے بڑا مورچہ،جس کی آبیاری بلوچ نوجوان اپنے خون اور قومی آزادی کی سوچ کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ایک بڑے ارتقائی عمل سے گذر کر بی ایس او تحریک کے تقاضوں کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ کسی بھی قوم کی آزادی اور تشکیل نوکا دارومدارسیاسی اداروں اور علمی بنیاد پر ہونا لازمی ہے کیونکہ جب سے انسانی تہذیب کا وجود عمل میں آیا ہے، تو جہاں جہاں انسان نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، تووہاں ہمیں اداروں کا سراغ ملتاہے، یہ الگ بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اداروں کی ساخت اور ہیئت میں تبدیلی آتارہتاہے اوریہی ارتقاء کا سچائی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی سماج کی ترقی یا قوموں کی تشکیل نوکے ساتھ ادارے لازم و ملزوم ہیں۔ خاندان، طبقات،اقوام بھی ادارے ہیں، جبکہ ریاست بھی ادارے ہی کی ایک ارتقائی شکل ہے۔ لیکن جس طرح چیئرمین خلیل بلوچ کہتے ہیں کہ ’’نجات ادارے میں ہے‘‘تو اسی تناظر میں دیکھاجائے توریاست سے محروم قوموں کے لیئے اداروں کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، ادارے ہی قوموں کی تقدیر کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ کسی شخصیت یا فرد کا کام نہیں ہوسکتاہے، اجتماع کے فیصلے اجتماع ہی کرسکتے ہیں، نہ کہ شخصیات۔ اور اس کام کے لئے بی ایس او کے خدمات بلوچ سماج میں ہمیشہ سے سر فہرست رہے ہیں۔ کیونکہ اگر ہم کسی جمہوری ریاست کی تشکیل کی جدوجہد کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں اصولی طورپر محض قول نہیں بلکہ اپنے فعل سے یہ ثابت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

بی ایس او جہاں نوجوانوں کو نہ صرف اداروں کی جانب راغب کرتی رہی ہے بلکہ ان کو نوآبادیاتی نظام تعلیم کے اندر نظریاتی تعلیم کے ہتھیار سے لیس کرتارہاہے اور یہ واضح کرتا رہا ہے کہ غلامی کسی بھی شکل میں ہو وہ غلامی ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانا، ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ بلوچستان میں پارلیمانی جدوجہد کرنے والے ریاستی آشیرباد میں سیاست کرنے والی پارٹیز اور شخصیات تو اس پر ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں کہ بی ایس او کو اپنے بلوچ دشمن منصوبوں کی آبیاری کے لئے استعمال کریں مگر بی ایس او کو اپنے زیر دست لانے کے لیئے آزادی کی جدوجہد کرنے والی قوتوں نے بھی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، گویا ہر کسی کا مقصد بی ایس او کو خود سے منصوب کرکے اس قوت کو اپنے حق میں استعمال کرنارہا ہو۔

بحثیت بلوچ طالب علم میں نے بی ایس او کے دوستوں اور لیڈر شپ کوقریب سے اسی سوچ کے خلاف لڑتے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستانی ظلم وجبر کا شکار ہوتے بلوچ قوم کو اس غلاظت سے چھٹکارا دینے کے لئے ہمہ وقت بلوچستان کے طول وعرض میں سراپا احتجاج رہتے دیکھا ہے، ساتھ ہی ساتھ موبلائزیشن کا نہ رکنے والا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رکھا گیا ہے جو آج کے مشکل دور میں بھی بلا تعطل جاری ہے اور ان سب کے علاوہ مذہبی منافرت، انتہا پسند سوچ، بلوچی زبان کو مٹانے کی کوششوں اور بلوچ قوم کے درمیان تضاد پید کرنے والی قوتوں کے سامنے بھی بی ایس او ہمیشہ ایک دیوار کی مانند کھڑی رہی ہے۔

میں فخریہ کہہ سکتا ہوں کہ بی ایس او کے دوستوں نے بیک وقت کئی محاذوں پر بلوچ قوم اور بی ایس او کے خلاف ہونے والی سازشوں کو روکنے میں کردار ادا کیا اور بلوچ سیاست دان ابھی اس بحث سے نہ نکلے تھے کہ بلوچ خواتین کو قومی تحریک کا حصہ بنایا جائے یا نہیں؟ مگر بی ایس او نے عملاً یہ ثابت کردیا کہ وہ معاشرے کے اکثریت کو معاشرے سے کاٹ کر ایک کامیاب تحریک اور ایک جمہوری اور لبرل آزاد ریاست کی بنیاد نہیں ڈال سکتے۔ ممکن ہے مجھ سے کوئی اتفاق نہ کرے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ بی ایس او بلوچ سیاست کی اکائی ہے۔ لیکن تکلیف اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے لئے کسی مظبوط و منظم سیاسی پارٹی بنانے کے بجائے ہمیشہ سے سب کی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ کیسے بی ایس او کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذار کر اپنا اپنا حصہ اس میں سے نکال لیں۔ بی ایس او کو اینٹ بنا کر اپنی اپنی ڈیڈھ اِنچ کی مسجد کی تعمیر کے چکروں میں نوجوانوں کے اس آرگنائزیشن کو صدقے کے طور پر استعمال کرتے رہے اور آج بھی کرنے کی کوشش جاری ہے۔

اگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر کو دیکھیں، تو بلوچ تحریک ہمیشہ قبائلی یا نیم قبائلی شخصیات کے ماتحت رہی ہے۔ آج بھی یہ سوچ پارلیمانی اور آزادی پسند شخصیات اور گروپوں میں موجود ہے اور بد قسمتی سے چند پڑھے لکھے لوگ بھی ان قبائلی یا نیم قبائلی بنائے گئے اداروں کو فنکشنل کرانے کے لئے بی ایس او کو ذیلی تنظیم یعنی (پاکٹ آرگنائیزیشن) بننے کی تجویز دیتے ہیں مگر تاریخ کی زَد سے کوئی نہیں بچ سکتا، تاریخ کے اوراق ہمیشہ بی ایس او کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور دھوکے کو سیاہ الفاظ میں لکھیں گیں۔

آج بھی بی ایس او اسی طرح کی سازشوں کا سامنا کر رہی ہے اور اس تناظر میں کبھی کسی نے نہیں سوچا ہے کہ بی ایس او کے ساتھ ہونے والے منفی رویوں کا اثر بلوچ سیاست اور بلوچ نوجوانوں کو کس طرح متاثر کرے گی۔ بی ایس او کو بی ایس او رہنے دیا جائے اور اسے اپنے آزاد حیثیت کے ساتھ قبول کر کے منظم و متحد ہونے دیا جائے، اس پر کبھی کوئی سنجیدہ مشترکہ ڈسکشن کیوں نہیں کیا گیا؟۔ اگر واقعی میں بلوچ سیاست سے وابستہ تمام جْز حقیقی بنیادوں پر اس بات سے متفق ہوتے تو آج بی ایس او جیسے ادارے کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے، ان تمام تقسیم در تقسیم کے پیچھے انہی صاحبان کا دست شفقت رہا ہے، جس کے نتیجے میں آج بی ایس او،پجار، مینگل، بی آر ایس او کے مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں، اگر تحریک کے اس دہانے پر پہنچ کر بھی ہم اس مفاد پرستانہ اور غیر سیاسی عمل سے باز نہ آئے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بلوچ نوجوانوں کے سیاسی سوچ کو پاکستان کے تعلیمی ادروں سے زیادہ بانجھ بنانے میں ان کا کردار نمایاں رہے گا۔

بی ایس او پارلیمانی سیاست سے لیکرقومی آزادی کی تحریک میں مختلف لیڈر شپ کے ہاتھوں یرغمال ہوتا رہا، بلوچ دانشور،سیاسی ورکرز، تماشائی بن کر دیکھتے رہے، نوجوانوں کی قوت منتشر ہوتی رہی۔ جب جہاں کہیں جسے نوجوانوں کی ضرورت پڑتی تو وہ بلا جھجک بی ایس او کو تقسیم کی طر ف لے جا کر ایک الگ بی ایس او بناکر قوم و دنیا کو کنفیوز کرتے اور ایک نیا بی ایس او متعارف کر کے نوجوانوں کو دن بہ دن مایوسی کی طرف دھکیلتے۔

میں یہی سمجھتا ہوں کہ بی ایس او ریاستی ظلم وجبر سے زیادہ اپنوں کی انا اور رسہ کشیوں شکار رہا ہے، اگر ہم بی ایس او کے ماضی کو دیکھیں تو سرداروں اور متوسط طبقات نے بی ایس او کے ساتھ خوب کھیل کھیلا، آج تک نہ صرف بی ایس او بلکہ قومی تحریک آزادی بھی ان تمام اعمال کا سزا بھگت رہی ہے۔ جس پیداواری عمل سے قومی تحریک زرخیز ہوتی رہی اس قوت کو چند وقتی مفادات کے بھینٹ چھڑانے میں کوئی کسر نہ چھوڑا گیا، جس کے بدولت ہم بی ایس او جیسی فیکٹری سے بننے والے کیڈرز کو ایک قومی پارٹی دینے میں ناکام رہے، ان نا پختہ رویوں اور مفادات کی جنگ کے بدولت ماضی اور حال کے بلوچ لیڈرشپ قوم کو ایک ماس پارٹی دینے میں ناکام رہے، جو کہ ایک قومی آزادی کی تحریک کی اولین شرط ہے۔ کیونکہ پارٹی و اداروں کے بغیر کسی ریاست کا خواب کیسے عمل میں آ سکتا ہے؟ پارٹی قوم کی، تحریکوں کی ترجمانی کرتے ہیں نہ کہ شخصیات، پارٹی نظام ریاست بناتے اور چلاتے ہیں، پارٹی عالمی سطح پر کسی بھی قوم کا آواز اور واحد پلیٹ فارم ہوتی ہیں، جو آزادی کا پرچار کرتی ہیں۔ سماج میں بسنے والے تمام طبقات کیلے قابل قبول ہوتے ہیں اور اپنے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ خود کو خلائی مخلوق اور افضل و اعلیٰ تصور کر کے قوم کو اور تحریک سے جڑے باقی جزوں کو حقیر سمجھتاہو۔ پارٹی سماج کے مسائل حل کرتی ہے، نہ کہ سماج کو مسائل میں دھکیلتی ہے، کوئی بھی پارٹی بغیر عوامی سپورٹ، اور حمایت کے زندہ رہ ہی نہیں سکتی۔

قومی تحریک میں ان رویوں کو فروغ دینے والے شخصیات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، جو بلوچ تحریک کے لئے ادارہ جاتی پالیسی اپنانے یا ادارے بنانے میں رکاوٹ ہوں۔ انہی رویوں کے سبب آج ہم ایک منظم پارٹی بنانے میں ناکام رہے،اگر تاریخی یا حقیقی زاویوں پر دیکھیں تو ہمارے بغض،انا،قبائلی سوچ،اداروں پر اپنی بالادستی اور شخصیت پرستی نے بلوچ پارٹی بنانے میں جو خلا پیدا کیا وہ یقیناً ہماری دشمن نہ کر پائے۔ بقول واجہ انور صاحب خان۔
بدبختی ے سوگاتاں امروزے کواران کن
براسے کہ بہ بیت دژمن،سد دژمنے کارا کن
اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ لکھنا بحث کرنا ہماری ذمہ داری ہے، کیونکہ یہ موضوع آج ہر نوجوان کا سوال ہونے کے ساتھ ساتھ قومی ضرروت بھی ہے اور دوسری جانب بلوچ نوجوانوں کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اور اپنی زمہ داریوں کا احساس کرکے اپنی صفوں کو منظم اور توانا رکھنے کیلئے بھرپور جدوجہد کریں۔ بی ایس او کے ساتھ ماضی میں جو ہوا یہ احساس بلوچ اسٹوڈنٹس بلخصوص بی ایس او آزاد سے وابستہ ساتھیوں کو سنجیدگی کے ساتھ ہونا چاہیے کیونکہ ہر کسی کے فرمائش پر روز نئے بی ایس او کو وجود میں لانا ہمارے ان ساتھیوں کی قربانیوں کا مذاق اْڑانا ہے، جو آج ہم میں نہیں ہیں، یا تاریک زندانوں میں ہیں یا پھر ریاست کے ہاتھوں بے دردی سے قتل کر کے ویرانوں میں پھینک دیئے جا چکے ہیں۔

میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ اْس بی ایس او کو مضبوط اور آئیڈیل بنائیں جس کے پلیٹ فارم سے بلوچ قومی غلامی کا نجات ممکن ہو۔ یہی احساس اور سوچ ہماری کامیابی کے علامت ثابت ہو سکتی ہے، اسی سوچ کو اپنانے سے ہماری آنے والی نسل منتشر ہونے اور تقسیم درتقسیم کے عذاب سے نجات پائے گی۔