اسرائیل اور حماس کا جنگ بندی: اب تک کی تفصیلات کیا ہیں؟

74

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی امریکہ اور فلسطینی تنظیم نے تصدیق کر دی ہے جبکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات کو ابھی واضح طور پر بیان کیا جانا ابھی باقی ہے۔

معاہدے کی خبر بدھ کو کئی ہفتوں سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس پیش رفت کے بعد امید پیدا ہو گئی ہے کہ غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری تباہ کن جنگ آخر کار خاتمے کو پہنچے گی اور پچھلے سال سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں یرغمال بنائے گئے افراد رہا ہو جائیں گے۔

اگلے ہفتے سبکدوش ہونے والے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی پر الوداعی تقریر میں امید کا اظہار کیا تھا کہ ان کی تجویز کردہ کے تحت جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے پر اتفاق بالکل قریب ہے۔

آنے والے صدر ٹرمپ نے بھی اسرائیل سے اغوا کیے گئے یرغمالوں کی رہائی پر زور دیتے ہو ئے کہا تھا کہ اگر ان کی 20 جنوری کو حلف برداری تک انہیں رہا نہیں کیا جاتا تو قیامت برپا ہو جا ئے گی۔

واشنگٹن میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے چیئر مین جم رش نے سب سے پہلے یہ خبر شیئر کی۔

بدھ کی سماعت کے دوران سینیٹر رش نے معاہدے کی خبر دیتے ہوئے کہا،” اس سے قبل کہ ہم سب اس کی خوشی منائیں، ہم سب چاہیں گے کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوتا ہے۔”

ان کے ریمارکس کے جواب میں ڈیموکریٹک سینیٹر کرس مرفی نے کہا،”یہ یقیناً ایک اچھی خبر ہے۔”

اس طرح امریکہ کے ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن قانون سازوں نے بدھ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کو خوش آئند قرار دیا۔

امریکہ، مصر اور میزبان قطر نے جنگ کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرت کی کئی ماہ تک ثالثی کی۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے ا یک بیان جاری کرتے ہو ئے کہا کہ معاہدے کی تفصیلات کو آج حتمی شکل دے دی جائے گی۔

واضح رہے کہ کسی بھی معاہدے کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری درکار ہو گی

اب تک کیا معلوم ہے؟

قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے بدھ کو اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے پر عمل درآمد 19 جنوری یعنی اتوار سے شروع ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کی کامیابی کا دارو مدار اس پر ہو گا کہ اسرائیل اور حماس کہاں تک اس پر نیک نیتی سے عمل درآمد کرتے ہیں۔

وہ قطر کی جانب سے ان مشکل مذاکرات کی کئی ہفتوں تک میزبانی کرنے کے بعد معاہدے کی تفصیلات بیان کر رہے تھے۔

ایسو سی ایٹڈ پریس نے تین امریکی اہلکاروں اور فلسطینی تنظیم حماس کے ایک اہلکار کے نام ظاہر کیے بغیر کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔

ایک اہلکار کے مطابق معاہدے کے تحت ابتدائی طور پر غزہ میں جاری لڑائی میں چھ ہفتے کا وقفہ ہوگا۔

اس دوران جنگ کے مکمل خاتمے پر مذاکرات کیے جائیں گے۔

ان چھ ہفتوں کے دوران تقریباً ایک سو یرغمالوں میں سے 33 رہا کیے جائیں گے اور وہ کئی ماہ کی اسیری کے بعد اپنے پیاروں سے دوبارہ مل پائیں گے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق رہائی پا نے والے یرغمالوں میں دو امریکی شہری بھی شامل ہوں گے۔

حماس کی اسیری کے دوران ان یرغمالوں کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔

وضاحت طلب سوالات

ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا باقی کے تمام یرغمالی زندہ ہیں۔

دوسری طرف فلسطینیوں کے حوالے سے ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ بے گھر ہونے والے لوگ کب اور کتنی تعداد میں اپنے تباہ حال گھروں کو واپس جا سکیں گے۔

یہ بھی واضح نہیں ہے کہ کیا جنگ مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور یہ کہ اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے گی۔

خیال رہے کہ جنگ کا مکمل خاتمہ اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا حماس گروپ کی جانب سے یرغمالوں کی آزادی کے جانب اہم ترین مطالبات رہے ہیں۔

ابھی اس بارے میں بہت سے سوالوں کے جواب سامنے آنا باقی ہیں کہ جنگ کے بعد غزہ کی صورت حال کیا ہو گی اور غزہ کی پٹی پر حکمرانی کون کرے گا۔

تباہ حال غزہ کی تعمیر نو

فلسطینیوں کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ غزہ کی از سر نو تعمیر کی نگرانی کون کرے گا کیونکہ جنگ میں یہ علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔

اگر معاہدے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو ایک کلیدی سوال یہ ہوگا کہ اسرائیل اور عرب ممالک جنگ کے بعد کے غزہ مستقبل کی سوچ پر کیسے متفق ہوں گے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ بہت بڑا چیلنج ہو گا جس میں اسرائیل کے لیے سکیوریٹی ضمانت اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے اربوں ڈالر کی دستیابی اہم معاملات ہوں گے۔

اسرائیل نے غزہ کے مستقبل میں حماس کی شمولیت کے خیال کو مسترد کر دیا ہے۔

حماس 2007 سے غزہ پر حکمرانی کر رہی تھی۔

دوسری طرف اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کی غزہ پر حکمرانی کے خیال کی بھی مخالفت کی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کا قیام تین دہائیاں قبل ہونے والے اوسلو معاہدے کے تحت کیا گیا تھا۔

جنگ سے نہ صرف غزہ کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مشرق وسطی کا پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو گیا جبکہ دنیا بھر میں اس جنگ کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔

جنگ گزشتہ سال سات اکتوبر کو اس وقت چھڑی جب عسکریت پسند تنطیم حماس نے، جسے امریکہ اور بعض یورپی ملکوں نے دہشت گرد گروپ نامزد کیا ہے، اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملہ کردیا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1,200 تقریباً لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنا لیا اور انہیں غزہ لے گئے۔

جواب میں اسرائیل نے غزہ پر حملے شروع کیے جن میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ غزہ میں حماس کے تحت محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اب تک 46,000 فلسطینی ہلاک ہوگئے ہیں، پٹی پر رہنے والے 90 فیصد لوگ بے گھر ہوگئے۔ نتیجتاً غزہ میں ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا۔