دالبندین قومی اجتماع، یہ لاوارث لاشیں و قبریں درحقیقت ہمارے عظیم شہداء ہیں – ڈاکٹر ماہ رنگ

137

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان ایک ایسی سرزمین بن چکی ہے جہاں روز بروز بربریت، سفاکیت، اور متشدد کارروائیوں کی انتہا ہر طرف جھلکتی ہے۔ ہر گزرتے دن کسی ماں سے اس کا بچہ چھین لیا جاتا ہے اور پھر قید خانوں میں رکھنے کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش کو لاوارثوں کی طرح ویرانوں اور بیابانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یا پھر وہ کسی ایدھی سنٹر کے ہسپتال میں پڑ کر “لاوارث” کا ٹائٹل اپنے نام کر کے گمنامی کے ساتھ دفنائی جاتی ہے۔ بعض اوقات سالہا سال عقوبت خانوں میں رکھ کر اس کی انسانی پہچان چھین لی جاتی ہے اور اسے انسانیت سوز اور وحشت ناک اذیتوں سے دوچار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہر گزرتے دن ایک ایسا دردناک واقعہ سامنے آتا ہے جس میں پاکستانی فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے کسی بلوچ خاندان کے گھر پر چھاپہ مار کر عورتوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور مردوں کو جبراً اغوا کر لیتے ہیں۔ ایک سوچے سمجھے اور منظم منصوبے کے تحت روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کو جبراً ماتم زدہ اور عذاب خانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ بلوچ قوم کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ان کی زندگی اور موت کا فیصلہ ظالم اور وحشی ریاستی اداروں کے ہاتھ میں ہے۔

بلوچ رہنماء نے کہاکہ دوسری جانب، کئی سالوں سے پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کے درندے جس بے دردی سے ہمارے ہزاروں پیاروں کو لاپتہ کرنے کے بعد مسخ کرکے غیر انسانی، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر مذہبی انداز میں لاوارث سمجھ کر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گمنام قبرستانوں میں دفنا رہے ہیں، اس کا مقصد بلوچ قوم کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اپنی ہی سرزمین پر نہ صرف لاوارث ہیں بلکہ ان کی زندگی و موت کا فیصلہ بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ظالمانہ عمل درحقیقت ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ اس سرزمین پر ہماری حیثیت جانوروں سے زیادہ کچھ نہیں۔

انہوں نے کہاکہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنی غیر قانونی طاقت کا رعب جمانے اور بلوچ سرزمین کے وسائل کا بے دردی سے استحصال کرنے کے لیے ایک منظم منصوبہ بنا چکے ہیں، جس کے تحت بلوچ قوم کی نسل کشی کو دوام دینا ان کے منصوبے کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔لیکن بحیثیت بلوچ قوم، ہم ایک ایسی لازوال تاریخ اور تہذیب کے مالک ہیں جس میں مزاحمت ہمیشہ سرِفہرست رہی ہے۔ ہم نے ایک زندہ اور جاوید قوم کی حیثیت سے ہزاروں سال سے کسی بھی ظالم، جابر، وحشی ریاست یا قابض قوت کے سامنے سر نہیں جھکایا بلکہ ہمیشہ مزاحمت کا پرچم بلند رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیشہ مزاحمت کی راہ اپناتے ہوئے دشمنوں کو یہ پیغام دیا کہ نہ وہ اور نہ ہی ان کی سرزمین لاوارث ہے۔ ہمیں اسی وراثت کو زندہ رکھنا ہے اور مزاحمتی طرز عمل کے ذریعے اپنی قوم کو متحد کرکے ریاست سمیت دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم اس سرزمین کے وارث ہیں اور ایک بہادر قوم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر جینے کا حق رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہاکہ ہم لاوارث نہیں ہیں کہ پاکستانی فوج اور اس کے ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے ہمارے پیاروں کو مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں گمنامی کے ساتھ دفنائیں۔ آج اگر ہم اس وحشیانہ نسل کشی کے خلاف خاموش رہے اور اس ظلم و جبر کو ناقابل تسخیر سمجھ لیا تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی آگ میں جھلس جائیں گی یا اجتماعی قبروں کا شکار ہو جائیں گی اور ہماری ہزاروں سال پرانی شناخت مٹی میں مل جائے گی۔

انہوں نے مزید کہاکہ لیکن اس وحشیانہ نسل کشی کو خاموشی کے ساتھ قبول کرنا بحیثیت قوم ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ اسی لیے ہم نے گزشتہ روز مستونگ کے علاقے دشت میں اپنے گمشدہ پیاروں کی اجتماعی قبروں کے سامنے صرف ایک پریس کانفرنس نہیں بلکہ ایک عہد کیا ہے کہ نہ یہ قبریں لاوارث ہیں اور نہ ہی بلوچ سرزمین لاوارث ہے۔ ہم نے عہد کیا ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی وراثت کو زندہ رکھ کر جبر و سفاکیت کے خلاف ڈٹ جائیں گے۔

آخر میں انہوں نے کہاکہ اسی لیے ہم نے اس پریس کانفرنس کے توسط سے یہ اعلان کیا ہے کہ 25 جنوری 2025 کو دالبندین میں ایک قومی اجتماع منعقد کرکے دنیا کے سامنے یہ ثابت کریں گے کہ ہم بلوچ قومی نسل کشی کو نہ برداشت کریں گے اور نہ ہی اس پر خاموش رہیں گے۔ ہم دنیا کو یہ باور کرائیں گے کہ نہ ہماری قوم لاوارث ہے اور نہ ہی ہماری سرزمین۔لہٰذا، میں تمام بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ 25 جنوری کو دالبندین کے مقام پر منعقد ہونے والے قومی اجتماع میں بھرپور شرکت کرکے یہ ثابت کریں کہ یہ لاوارث لاشیں اور قبریں درحقیقت ہمارے عظیم شہداء ہیں۔