خاران کا چراغ شہید نورالحق عرف بارگ – اسلم بلوچ

505

خاران کا چراغ شہید نورالحق عرف بارگ

تحریر: اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں آج ایک ایسے ہستی کے بارے میں لکھنے جا رہا ہوں جہاں میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کہ مجھ جیسے ناچیز میں اتنی ہمت اور دوربینی ہے کہ نہیں کہ میں اس عظیم انسان کے زندگی کو بیان کر سکوں، اس بہادر انسان کے بارے میں لکھتے ہوئے میرے ذہن میں ڈاکٹر چےگویرا،بھگت سنگھ، شہید غلام محمد، شہید بالاچ مری اور بلوچ سرزمین کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی تمام شہدا اور نجات دہندہ بار بار آ رہے ہیں کیونکہ ان سب کے مقام تاریخ کے فہرست میں ایک جیسے ہیں۔ ان سب عظیم ہستیوں نے اپنے قوم کے غلامی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے کئی مصائب اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے۔

آج سے کئی سال پہلے جب میرے ہاتھ میں ڈاکٹر چےگویرا اور بھگت سنگھ کی کتابیں تھیں، تو مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ خاران کے سرزمین بھی اتنا زرخیز ہے کہ یہاں پر بھی بے مثال کامریڈز شہید نورالحق، نثار جان، ناصر جان، مقبول جان اور اللہ رحم جنم لے سکتے ہیں ۔جب میں ہندوستان اور کیوبا کے آزادی پسند لیڈروں کے داستان دوستوں کے ساتھ بیان کرتا تو مجھے ایسا لگتا کہ میں تصوراتی اور کتابی دنیا میں جی رہا ہوں، مگر آج شہید نورالحق جان عرف بارگ کے عظیم قربانی نے ثابت کر دیا کہ یہ کتابی الفاظ دراصل پریکٹیکل ہوا کرتے تھے۔ شہید نورالحق کے زندگی کے 16 سالہ جدوجہد نے بالاخر لاکھوں لوگوں کو باور کرایا کے دنیا کے تاریخی جدوجہد حقیقت ہی پر مبنی ہے ۔اب آئیے شہید نورالحق کے زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

خاران کے چراغ بارگ جان 1988ء میں خاران کے شہر میں پیدا ہوا۔ اس نے جب آنکھیں کھولیں تو خاران کے ہر سمت میں تاریکی اور مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔ لوگوں کو بلکل اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس سرزمین پر ایک ایسے انسان نے آنکھیں کھول دی ہیں، جو خاران کے تاریخ کو نئے سرے سے لکھ کر ایک نیا باب کا آغاز کرنے والا ہے۔ لوگوں کو اس بات کا بلکل گمان نہیں تھا کہ خاران ریاست کو پنجابی آقا کے جھولی میں دینے کے بعد ایک ایسے فرزند نے آنکھیں کھولیں ہیں کہ اب پنجابی سامراج کا سردردی، مایوسی اور شکست سے سامنا ہو گا۔

شہید نے اپنے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول واپڈا کالونی سےشروع کیا ۔اس کو زندگی کے ابتداء ہی سے جستجو اور تحقیق کا شوق تھا ۔وہ بچپن سے ہی اپنے ہم عمربچوں سے مختلف تھا ۔جب وہ پانچویں کلاس میں تھا تو اس نے 2003ء میں بی ایس او (امان ) سے اپنے سیاسی جدوجہد کی شروعات کی۔ اس کے سیاست کے کچھ عرصہ بعد 2005 ء کو بی ایس او کے سابق چیئرمین ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کراچی سے ریاست کے ہاتھوں اغوا ہوتے ہیں، تو اس ریاستی جبر نے نورالحق کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ خاران کے سوئے ہوئے عوام کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہوگا۔

اس وقت خاران میں لالچ اور ذاتی مفادات کی سیاست اپنے عروج پر تھا ۔ شہید کے سینئر دوستوں نے 2005ء میں خاران پلس واشک کے قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں سردار فتح محمد حسنی کے طرف سے چند پیسوں کے خاطر اپنے سیاسی نظریہ بیچ کر باقاعدہ مسلم لیگ ق میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ شہید نے جب ان سے کہا کہ بھائیو! آپ لوگوں نے اپنے ضمیر چند پیسوں کے عوض بیچ دیئے تو اسے جواب میں یہی کہا گیا کہ جب جیب میں پیسے نہیں ہو تو ہم خالی ضمیر کو کیا کریں، جس کا تذکرہ شہید اپنی پورے زندگی میں دوستوں کے ساتھ کرتا رہتا تھا۔

اس کے بعد شہید ہر وقت یہی سوچتا رہتا کہ خاران کے نوجوانوں کو میں کیسا پیغام دے کر ثابت کر دوں کہ ضمیر اور بلوچی غیرت نامی چیزیں ہوا کرتے ہیں۔ شہید نے پرائمری تعلیم کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول ہندو محلہ میں داخلہ لیا۔جب وہ ہائی سکول میں تھا تو اس وقت ڈاکٹر اللہ نظر اور دیگر دوستوں کے رہائی کیلئے شہید سہراب مری اور شہید حکیم جان تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ شہید کو اس بات کا ادراک ہوا کہ بلوچستان کے اصل جدوجہد اور منزل صرف اور صرف قومی آزادی میں ہے اور اس کے لئے تکلیف دہ اور مشکل راستہ کا انتخاب کرنے سے نہیں کترانا ہے۔ پھر 2005 کے ہی سال میں خاران سے کوئٹہ کے طرف روانہ ہوا۔ کوئٹہ پہنچتے ہی اس نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کیمپ کا دورہ کرکے باقاعدہ بی ایس او متحدہ میں عملی شمولیت کا اعلان کردیا۔ کیمپ میں شہید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ہم نوجوانوں کو قلم کے ساتھ ساتھ بندوق اٹھانے ہیں تو پھر ہم آزادی کے سفر کو طے کرسکتے ہیں۔ جس کو شہید نے اپنے شہادت کے آخری دنوں تک ثابت کیا۔

کوئٹہ کے دورے کے بعد جب وہ خاران پہنچے تو وہ مسلسل شہید سہراب مری، شہید حکیم جان اور شہید کریم جان کے ساتھ رابطے میں تھا اور یہی شہدا اس کے استاد تھے۔ شہید نے آتے ہی آزادی کی پرچار شروع کی۔ ان کے دوست فٹ بال اور کرکٹ میں مشغول تھے مگر شہید کے ہاتھوں میں پمفلٹ, انتخاب اخبار, آساپ اخبار ,سنگر میگزین اور انقلابی کتابیں تھیں ۔وہ ہروقت کتابیں تقسیم کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ 2005 میں شہید ایک ننھا سا معصوم بچہ ہوتے ہوئے خاران کے بازار میں اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ ہاتھوں میں بینر ز اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر اللہ نظر کے منظر عام پر لانے کے لئے ریلی نکالی جس نے خاران کے لوگوں کو حیران کردیا ۔شہید کے اس جرت مندانہ عمل نے خاران کے سوئے ہوئے لوگوں کو نیند سے جگانا شروع کیا ۔اس نے عوام کو احساس دلایا کہ خاران کے تاریخ کو ان لوگوں نے مسخ کیا تھا جنھوں نے چند پیسوں کے عوض باغی نورا مینگل کو دشمن کے ہاتھوں بھیچ دیا تھا اور پھر بغیر مزاحمت کے خاران کو پنجابی کے جھولی میں دے کر اپنے خوف اور بےبسی کا اظہار کر دیا تھا ،مگر اس نے لوگوں کو شعور دلایا کہ آؤ دنیا کو بتائیں کہ ہم بھی تاریخ بنا سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ دشمن کو بتاسکیں کہ اس سرزمین میں سوداگروں کے علاوہ باضمیر اور وطن کے وارث بھی ہیں جو کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔

شہید کی سیاسی جدوجہد کے شروعات کے دنوں میں اس کے کئی دوست تھے لیکن انہوں نے ریاستی خوف اور لالچ کی وجہ سے اس سے آہستہ آہستہ کنارہ کشی شروع کیا مگر شہید نورالحق کی ہمت اور حوصلہ پر کوئی فرق نہیں پڑ سکا ۔کچھ نے تو شروع کے دنوں میں خاموشی اور گمنامی کے زندگی کا انتخاب کیا ،کچھ نے آئی ایس آئی کے خاران کے سابق ڈائریکٹر مظفرجمالی سے ڈیل کیا ،کچھ نے بعد میں خفیہ سرنڈر کرکے رسوائی کو اپنے ماتھے پر لگا کر شہر ہی میں رہے یا بیرون ملک میں بھاگ گئے اور چند نے تو عوامی سرنڈر کرتے ہوئے ذرا سی بھی شرم محسوس نہیں کی مگر شہید نورالحق کے جدوجہد کے بدولت کئی دوست آخر تک اس کے ساتھ رہے اور مرتے دم تک انقلابی راستے پر چلتے ہوئے قربانی دیتے رہے، جس کو شہید میرل جان نے شہید نورالحق کے زندگی میں ہی ثابت کیا اور ساتھ ساتھ یہ ثابت کیا کہ میدان جنگ سے بھاگنے والوں کے علاوہ اس سرزمین پر جان قربان کرنے والوں کے بھی کمی نہیں ہے۔

شہید ہر وقت اپنے دوستوں کو ہی کہتا تھا کہ آزادی کے سفر میں بہت سے لوگ اپنے لالچ خوف اور بزدلی سے چھوڑ کر بھاگ جائیں گے مگر ہمیں کھبی بھی مایوس نہیں ہونا ہے۔ اسی طرح شہید نے بلا خوف اپنے جدوجہد کو جاری کیا، کھبی کلاں کے گلیوں میں چاکنگ کرتا ، توکھبی دیہاتوں میں کسان اور بزگر کو بلوچ آزادی کے موضوع پر لیکچر دیتاتھا۔ جب بی ایس او متحدہ اور بی ایس او کے دیگر دھڑوں کا انضمام ہوا تو شہید بی ایس او آزاد خاران زون کے صدر رہے اور اسی دوران 2007 ء کے سال میں وہ خاران پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ خاران پولیس کے شدید اذیت کے باوجود شہید اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔

میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہید نے انٹرمیڈیٹ کیلئے گورنمنٹ سائنس کالج کوئٹہ میں داخلہ لیا۔ سائنس کالج سے ایف ایس سی انجیئنرنگ کے بعد اس نے ٹنڈوجام یونیورسٹی سندھ میں بی ایس ایگریکلچر میں داخلہ لیا۔ کالج اور یونیورسٹی کے دوران شہید زیادہ تر اپنے سیاسی کام سے منسلک تھا اور ہر وقت یہی کہتاتھا کہ میری منزل سرکاری نوکری اور آسائش نہیں ہے بلکہ مجھے قومی غلامی کے خلاف عملی جدوجہد کرنا ہے۔

شہید نے بی ایس ایگریکلچر کے پروگرام کو مکمل کرنے کے بعد مکمل طور پر زیر زمین چلے گئے، کیونکہ وہ یہی کہتا تھا کہ میں نے کئی دوستوں کو پہاڑوں پر بھیجا ہے تو مجھے اب شہر میں رہ کر ان باغی دوستوں کے سامنے بے چینی کا سامنا ہے حالانکہ وہ شہر میں رازداری کے ساتھ اپنے کام کررہا تھا، مگر اس نے صرف اس منصوبہ کے تحت پہاڑی زندگی کے شروعات کیا تاکہ پہاڑوں میں بیٹھے اس کے تیار کردہ سرمچا ر ساتھیوں کے حوصلوں میں کمی واقع نہ ہو۔ اسی طرح 2012 کے شروع ہی سے شہید مکمل طور پر روپوش ہو کر اپنا کام تیزی سے چلاتے  رہے ، کھبی خاران کے صحرا اور میدان میں، کھبی لجہ کے کیمپ میں، کھبی آواران کے علاقے اور کھبی نوشکی کے سرزمین میں اپنے مشن کے ساتھ مصروف تھا۔

وہ ہر وقت اپنے دوستوں کے سیاسی تربیت میں مشغول تھا اور ساتھ ساتھ پارٹی میں نئے دوست بھرتی کرتا رہتا تھا ۔وہ ہمیشہ اپنے مظلوم عوام کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اپنے کام کے سلسلے میں وہ کھبی سمجھوتہ نہیں کرتا اور ہر طرح کے خطرات سے نمٹتا رہتا تھا۔ جب بھی دوست اس سے کہتے کہ تھوڑا سا احتیاط کرو تاکہ آپ دشمن کے ہاتھوں سے نقصان نہیں کھائیں تو وہ دو ٹوک الفاظ میں کہتا  کہ اگر میں آزادی کے راستے میں قربانی سے ہچکچاہٹ کا شکار ہو جاؤں تو باقی دوست قربانی کیلئے کیسے تیار ہوں گے۔ وہ ہر وقت یہی کہتا کہ دو گھنٹے کے وقت میں قومی غلامی کے خلاف کام کرتے ہو شہادت کے زندگی 20 سال کے خالی بیٹھنے سے کئی گنا افضل ہے اور ساتھ ساتھ یہی کہتا  کہ مجھے صرف اور صرف کام کرنا ہے اور اس بات پر بالکل دھیاں نہیں دینا ہے کہ میں دشمن کے ہاتھوں مارا جاؤں گا بلکہ کام کے دوران میری شہادت ہی دراصل میری زندگی اور جدوجہد کا عین مقصد ہے۔

وہ عوامی رابطہ پر بہت زور دیتا تھا اور یہی کہتا کہ ہمیں عوام سے نزدیک ہوکر انہیں اپنے مشن سے واقف کرنا ہے۔ زندگی کے شروع سے شہادت کے وقت تک وہ اپنے سخت موقف پر ثابت قدم رہے۔ آخری وقت میں جب وہ ضیاالرحمان عرف دلجان کے ساتھ زہری کے علاقہ میں دشمن کے خلاف محاذ پر کام کررہا تھا تو اس کے باتیں یہی تھیں کہ قومی آزادی کے جدوجہد اور دہشتگردی میں صرف و صرف عوامی رابطہ اور عوامی شمولیت کا فرق ہے اور ہمیں بالکل موت کے خوف کی وجہ سے اپنے کاموں میں سست روی نہیں لانا چاہئے اور نہ ہی اپنے لوگوں سے دور رہنا ہے۔

وہ ہر وقت یہی کہتا کہ اگر نورالحق اس راستے پر قربان ہوتا ہے تو بلوچستان اور خاران میں کئی نورالحق موجود ہیں اور مزید جنم لیں گے۔ بالا آخر 19 فروری 2018 کو نورالحق نے اپنے تمام اقوال کو سچ ثابت کرتے ہوئے شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے۔اس نے سقراط کے طرح اپنے زندگی کے آخری لمحات میں دشمن کے سامنے سرینڈر کرنے سے موت کو ترجیح دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سرخ رو ہو کر اپنے آپ کو زندہ کر دیا۔ خاران کے عوام کو نورالحق کے مشن اور جدوجہد کا اس وقت احساس ہوا جب کئی لوگ اس کے میت کے استقبال کیلئے خاران سے تقریباً 30 کلومیٹر دور کلی گروک گئے اور ساتھ ساتھ سینکڑوں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی اور ہزاروں لوگ اس  گھر میں فاتحہ خوانی کے لئے تشریفلائے۔

جب نورالحق کے میت کو بازار کے اندر سے لیتے ہوئے قبرستان کے طرف قافلے کے شکل میں لایاگیا تو بازار میں موجود زیادہ تر لوگ اس کے احترام کے لئے اپنے کرسیوں سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ اب نورالحق ہم سے جسمانی طور پر ضرور جدا ہوگئے ہیں، مگر اس کے کار نامے، بہادری اور ہمت کے داستان تاقیامت لوگوں کے گھروں اور دلوں میں زندہ رہیں گے۔

مجھے نورالحق کے جانے کا افسوس ضرور ہوتا ہے، مگر دکھ کبھی نہیں ہوتا کیونکہ نورالحق نے اپنے جیسے ہزاروں نورالحق بنائے ہیں۔