بلوچستان اور صحافت – سُہرنگ بلوچ

77

بلوچستان اور صحافت

تحریر: سُہرنگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں صحافت کی موجودہ صورتحال اور اس کے چیلنجز پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں صحافت اپنے حقیقی مقاصد اور اصولوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔ یہاں ریاستی پالیسی کے تحت دیگر اداروں کی طرح صحافت کو بھی کرپشن کا شکار بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے صحافیوں کے کردار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ صحافی بلیک میلرز ہیں، اور بدقسمتی سے یہ تاثر حقیقت کے قریب بھی معلوم ہوتا ہے۔

بلوچستان میں مین اسٹریم میڈیا کے نمائندوں کو چینلز کی طرف سے تنخواہ یا کسی بھی قسم کی مالی معاونت فراہم نہیں کی جاتی۔ اس مالی خلا کو پُر کرنے کے لیے صحافی سیاسی شخصیات، ٹھیکیداروں، اور دیگر بااثر افراد سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر، اگر کسی ٹھیکیدار کو کوئی سرکاری منصوبہ ملتا ہے تو صحافی اس منصوبے میں اپنا حصہ طلب کرتے ہیں، ورنہ وہ اس کے خلاف خبریں شائع کرتے ہیں۔ چونکہ اکثر ٹھیکیدار خود کرپشن میں ملوث ہوتے ہیں، وہ صحافیوں کو بھی اس سازش میں شامل کر لیتے ہیں تاکہ ان کی کرپشن منظر عام پر نہ آئے۔

صحافیوں کی آمدنی کا ایک اور ذریعہ سیاسی جماعتیں اور نمائندے ہیں۔ صحافی ان سیاسی شخصیات کے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں اور ان کے حق میں خبریں لکھتے ہیں، جس کے بدلے میں یہ سیاستدان ان کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال صحافت کے اصولوں کے بالکل برعکس ہے اور اس پیشے کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صحافیوں کی پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کی کمی ہے، جس نے صحافت کو ایک محدود اور غیر مؤثر عمل بنا دیا ہے۔ لیکن ان کی مہارت عموماً خبروں کی ترسیل تک محدود ہوتی ہے۔ صحافت اور رپورٹنگ کے درمیان فرق کو نہ سمجھنا بھی اس بگاڑ کی ایک اہم وجہ ہے۔

صحافت کی اصل روح تحقیق، تجزیہ اور سماجی مسائل کی گہرائی تک پہنچنے میں پوشیدہ ہے۔ ایک حقیقی صحافی وہ ہے جو عوامی مسائل کو گہرائی سے سمجھ کر ان کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لائے اور عوام کو شعور فراہم کرے۔ اس کے برعکس، رپورٹرز کی ذمہ داری محض خبریں فراہم کرنا ہے، جس میں تحقیق اور تجزیے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بلوچستان میں، رپورٹنگ عموماً سطحی خبروں تک محدود ہو چکی ہے، جس میں “اس نے کہا، اس نے مزید کہا” جیسے جملے نمایاں ہیں۔ اس رجحان نے نہ صرف صحافت کی گہرائی کو کم کیا ہے بلکہ عوامی مسائل کے حل کی طرف بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو رہی۔ یہ رپورٹرز عام طور پر سیاستدانوں کے بیانات، سیاسی جلسوں، یا حادثات کی خبریں رپورٹ کرتے ہیں۔ بلوچستان کے اہم اور سنگین مسائل، جیسے لوگوں کا لاپتہ ہونا، ریاستی جبر، فوجی آپریشنز، تعلیم، صحت، زراعت، اور 2022 کے سیلاب کے نقصانات پر تحقیقی رپورٹنگ کا فقدان ہے۔ یہ موضوعات نہایت اہم ہیں لیکن ان پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحافی ریاستی جبر کے خوف سے اہم مسائل پر رپورٹنگ کرنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن کئی ایسے موضوعات ہیں جو ریاستی دباؤ کے بغیر بھی تحقیق طلب ہیں۔ تعلیم کے مسائل میں اسکولوں کی کمی، اساتذہ کی غیر موجودگی، اور سہولیات کی قلت شامل ہیں۔ صحت کے شعبے میں بنیادی سہولتوں کا فقدان، اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی، اور ادویات کی عدم دستیابی جیسے مسائل ہیں۔ زراعت کے میدان میں پانی کی قلت اور جدید تکنیک کی عدم موجودگی جیسے مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔

2022 کے سیلاب نے بلوچستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ان نقصانات کی تفصیلات اور بحالی کے اقدامات پر جامع رپورٹنگ نہیں ہوئی۔ اس قسم کے مسائل پر تحقیقاتی صحافت کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کی شدت کو اجاگر کیا جا سکے اور حل کے لیے راستے نکالے جا سکیں۔ بلوچستان میں صحافت کو مزید پیچیدہ بنانے والی ایک اہم وجہ سیاسی پروپیگنڈے کا اثر ہے۔ یہاں بہت سے صحافی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور غیر جانبداری کے بجائے مخصوص بیانیے کی تشہیر کرتے ہیں۔ اس عمل نے صحافت کی ساکھ کو متاثر کیا ہے اور عوام کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ تحقیقاتی صحافت، جو بدعنوانی، نا انصافی اور دیگر سماجی مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہاں تقریباً ناپید ہے۔ تعلیم، صحت، پانی اور انسانی حقوق جیسے بنیادی مسائل پر مؤثر تحقیقاتی کام نہ ہونے کے برابر ہے، جس کی وجہ سے یہ مسائل مزید شدت اختیار کر گئے ہیں۔

صحافت کے میدان میں ریاستی جبر اور دباؤ نے بھی صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ بلوچستان میں صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھانے کے دوران سخت خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاستی مشینری اور مختلف طاقتور گروپوں کی طرف سے دھمکیوں اور دباؤ نے صحافیوں کی آزادی کو محدود کر دیا ہے۔ کئی صحافی اپنی جان گنوا چکے ہیں، اور بہت سے دیگر شدید خوف اور دباؤ کے تحت کام کرنے پر مجبور ہیں۔ اس خوف نے صحافت کو ایک غیر جانبدار اور آزاد ادارہ بننے سے روک دیا ہے۔ صحافیوں کے پاس وہ آزادی نہیں ہے جو سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے ضروری ہے، جس کی وجہ سے عوام کے مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

اس مظلومیت کی عکاسی ان نامور صحافیوں کی کہانیوں میں ہوتی ہے جنہوں نے اپنی جان دے کر سچائی کو سامنے لانے کی کوشش کی۔ ساجد حسین، ایک صحافی جو بلوچستان کے مظلوم عوام کی آواز بننے کی کوشش کرتے تھے، انہیں جلاوطن ہونا پڑا، مگر اس کے باوجود ریاستی مظالم کے نشانے پر رہے اور بالآخر سویڈن میں قتل کر دیے گئے۔ اسی طرح رضا جہانگیر، جو بلوچستان کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے جانے جاتے تھے، ریاستی جبر کا شکار ہو کر قتل کر دیے گئے۔ ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں صحافت کرنا صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک خطرناک مشن بن چکا ہے۔ ان صحافیوں کی قربانیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ سچائی کی جنگ میں استقامت اور قربانی کا کتنا اہم کردار ہے۔

بلوچستان کے صحافیوں کا کردار ان حالات میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ نہ صرف عوامی مسائل کو اجاگر کر سکتے ہیں بلکہ ان مسائل کو عالمی سطح پر پہنچانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ صحافیوں کو ایک ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ خوف سے آزاد ہو کر اپنی ذمہ داری نبھا سکیں۔ ان کے لیے تحفظ اور وسائل کی فراہمی ضروری ہے تاکہ وہ تحقیقاتی صحافت کو فروغ دے سکیں۔ صحافت محض خبروں کی ترسیل نہیں بلکہ ایک سماجی ذمہ داری ہے، جس کا مقصد عوام کو شعور دینا اور ان کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔

بلوچستان میں صحافیوں کو اپنے طریقہ کار اور حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ریاستی جبر کے دوران اپنی حفاظت کو یقینی بنا سکیں۔ انہیں غیر جانبداری کو اپنانا ہو گا اور اپنی رپورٹس میں دونوں فریقین کے موقف شامل کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی، صحافیوں کو اپنے تحقیقی عمل کو مضبوط بنانا ہو گا اور زیادہ سے زیادہ مسائل کو اجاگر کرنا ہو گا۔ بعض اوقات اپنی شناخت چھپا کر یا گمنامی میں رہ کر کام کرنے کی حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے تاکہ ان کی جان کو لاحق خطرات کم ہوں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود، صحافیوں کا مقصد سچائی کو سامنے لانا اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہونا چاہیے۔ ریاست کو بھی صحافیوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ صحافت کی آزادی کو دبانے کے بجائے اسے فروغ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ تحقیقاتی صحافت کو وسائل اور تحفظ فراہم کیے بغیر بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر صحافت کو اس کے حقیقی کردار کے مطابق فروغ دیا جائے، تو یہ معاشرتی ترقی کا ایک مضبوط ذریعہ بن سکتی ہے اور بلوچستان کی آواز دنیا بھر میں گونج سکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔