چیئرمین زاہد بلوچ کی گمشدگی کو چار سال مکمل

304

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ کی گمشدگی کو چار سال کا طویل عرصہ مکمل ہوگیا ہے، زاہد بلوچ ایک طالب علم اور سیاسی رہنما ہے ان کو 18مارچ 2014ء کو کوئٹہ سیٹلائٹ ٹاؤن سی جی ایس کالونی سے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا تھا، واقع کی چشم دید گواہ تنظیم کی موجودہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ تھی۔ زاہد بلوچ اُس وقت بی ایس اوآزاد کے مرکزی چیئرمین تھے اور کوئٹہ میں تنظیمی سرگرمیاں سرانجام دے رہے تھے ۔زاہد بلوچ کی اغواہ نما گرفتاری بی ایس او آزاد اور بلوچستان میں طلباء سیاست پر لگائے قدغن میں شدت لانے کا مترادف تھا۔ بلوچستان میں طلباء سیاست کیلئے زمین ہمیشہ سے تنگ رہی ہے لیکن بی ایس او آزاد کے کارکنان ہمیشہ ریاستی جبر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے، بی ایس او آزاد کے کارکنان نے گھٹن زدہ ماحول میں سیاسی کلچر کی تشکیل کیلئے انتھک محنت کی، اس سیاسی شعور کو پروان چڑھانے کیلئے چیئرمین زاہد جیسے طلباء رہنماؤں نے اہم کردار ادا کیا۔

چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواہ نما گرفتاری کے خلاف تنظیم کی جانب سے بلوچستان ، کراچی ، اور بیرون ممالک میں بڑے پیمانے پراحتجاجی مہم چلائی گئی تھی جس میں تنظیم کی مرکزی کمیٹی کے سابقہ رُکن لطیف جوہر کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے 46روزہ تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی شامل ہے۔ اس بھوک ہڑتالی کیمپ میں سابق وزیر اعلیٰ مالک بلوچ نے خود اعتراف کیا کہ زاہد بلوچ کو ایجنسیوں نے اُٹھایا ہے۔ چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواہ نما گرفتاری کے خلاف تنظیم کی جانب سے چلائی جانے والی احتجاجی مہم میں قوم پرست پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ ، بلوچ دانشور، ادباء ، استاتذہ سمیت مختلف شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی ۔ ہم انتہائی وثوق سے کہتے ہیں کہ چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواہ نما گرفتاری کے خلاف چلائی جانے والی احتجاجی مہم بلوچستان اور شائد اس خطے کی تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنماء کی گرفتاری کے خلاف چلائی جانے والے مہم میں سب سے بڑی مہم تھی لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ایک طلباء رہنما کو بغیر کسی جُرم یا وارنٹ کے گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا اور اُس کی بازیابی کیلئے بلوچستان سمیت پاکستان اور یورپ کے تمام بڑے ممالک میں مظبوط احتجاجی تحریک چلائی گئی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ادارہ سمیت دنیا کے تمام بڑے انسانی حقوق کے اداروں کو چیئر مین زاہد بلوچ کی کوائف جمع کرادیے گئے لیکن تمام اداروں نے اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے انحراف کیا اور اس کے نتائج یہ برآمد ہوئے کہ چیئرمین زاہد بلوچ کو چار سال کے طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود نہ بازیاب کیا گیا اور نہ ہی اس کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا۔

چیئرمین زاہد بلوچ کی اغواہ نما گرفتاری کے خلاف سابقہ مرکزی کمیٹی کے رُکن لطیف جوہر کی 46روزہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کو انسانی حقوق کی تنظیم ایشین ہیومن رائٹس کمیشن کے بحیثیت ذمہ دار ادارہ کے اس وعدے اور یقین دہانی پر ختم کیا گیا کہ چیئرمین زاہد بلوچ کو منظر عام پر لانے کیلئے پاکستان پر عالمی دباؤ ڈالا جائے گا۔ لیکن چیئرمین زاہد بلوچ کو منظر عام پر لانے کے اقدامات تو دور اس ذمہ دار ادارے نے بی ایس او آزاد سے اپنے رابطے منقطع کردیے ہیں جو بلوچستان میں انسانی حقوق کے سرگرمیوں کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتاہے۔
ترجمان نے انسانی حقوق کے اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین زاہد بلوچ بلوچستان کی سب سے بڑی طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کے چیئرمین تھے اور انتہائی فعال طلباء رہنماء تھے جو بلوچستان بھرکے طلباء کی نمائندگی کرتا تھا۔ چیئرمین زاہد بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری نہ صرف ایک انسان کی گرفتاری ہے بلکہ بلوچستان بھر کے ہزاروں طلباء کی حقوق کے آواز کو دبانے کی کوشش ہے، انسانی حقوق کے عالمی ادارے اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے چیئرمین زاہد بلوچ کو منظر عام پر لانے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالیں۔

ترجمان نے آخر میں کہا کہ چیئرمین زاہد بلوچ کی اغوانما گرفتاری کو چارسال مکمل ہونے پر 18مارچ 2018ء کو سوشل میڈیا میں #SaveZahidBaloch #SaveBSOAzadLeaders کے نام سے مہم چلائی جائے گی ۔تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اس مہم میں بھر پور حصہ لیکر اپنے انسان دوستی کا ثبوت دیں۔