استاد اسلم بلوچ، ایک نظریہ – سمیرا بلوچ

164

استاد اسلم بلوچ، ایک نظریہ

تحریر: سمیرا بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹر چی کا ایک قول بہت ہی زیادہ مقبول ہے کہ انسان کو تو ختم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسکی سوچ اور نظریہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے! نظریہ ایک ورثہ ہے، جو غیور نسل میں اسکی در نسل کو منتقل ہوتی ہے۔ نظریہ وہ ورثہ ہے، جس کو آج تک کوئی ختم کرنے والا جنم نہیں ہوا ہے۔

اگرچہ ڈاکٹر چی کے اس قول کو دنیا میں کروڑوں لوگوں نے صرف پڑھا ہیں۔ لیکن بلوچستان کی سرزمین پر بسنے والا ہر فرد شاید اس قول کی سچائی کا عینی شاہد ہیں۔ ان میں سے ایک عینی شاہد میں خود ہوں، استاد اسلم بلوچ کو شہید کرنے والوں نے ضرور انکی شہادت پر جشن منا کر یہی کہا ہوگا۔ بس بلوچستان کا مسئلہ ہم نے حل کر لیا لیکن انکو یہ اندازہ نہیں تھا کہ استاد اسلم بلوچ اب صرف ایک نام اور شخصیت نہیں بلکہ بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک مقدس نظریہ بن چکے تھے۔ استاد اسلم بلوچ وہ نام اور نظریہ ہے۔ جو ایک سنہری باب کی طرح بلوچستان کی تاریخ میں درخشاں رہے گا۔ انکے نظریے کی آج ہر بلوچ پاسبان ہیں۔ استاد اسلم بلوچ کو شہید کرنے والے شاید ڈاکٹر چی گویرا کے اس قول سے نابلد تھے کہ نظریہ کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ایک سوچ کو نظریہ بنانے کے لیے ایک شخص کو کہیں قربانیوں اور دشوار گزار امتحانات سے گذرنا پڑتا ہیں۔ جیسے تابنے کو سونا بننے کے لیے آگ میں سے تاپ کر گذرنا پڑتا ہے۔ ویسے ہی ایک سوچ کو نظریے میں بدلنے کے لیے آگ میں سے ہی گذرنا پڑتا ہے، اور استاد اسلم بلوچ نے قربانی کی وہ مثال قائم کی جو آپ کو تاریخ کے اوراق میں شاید شاذ و نادر ہی ملے، جب استاد اسلم بلوچ نے اپنے بیٹے ریحان بلوچ کو بلوچستان کے بیرک کے ساتھ الوداع کرکے اسے بلوچستان پر قربان ہونے کے لیے رخصت کیا۔ تو انکی بہادری، جرات، عظمت، عزم اور اپنے وطن سے عشق کی انتہا نے نہ صرف انکے مخالفین بلکہ ان سے عقیدت رکھنے والے کو بھی ششدر کر دیا۔ اپنی سرزمین سے دیوانگی کی حد تک محبت کرنے والے استاد اسلم بلوچ کی اس قربانی نے انکی مخالفین کی نیندوں کو حرام کر دیا تھا۔

” بابا مری کی یہ بات کہ ہماری جیت تب یقینی ہوگی، جب ہمارے دشمن کے دل میں ہمارا خوف بیٹھ جائے”

استاد اسلم بلوچ نے اپنے استاد کی شاگردی ویسے ہی کی جیسے انکے استاد اور رہبر کا درس تھا۔

استاد اسلم بلوچ آج اگر ایک نظریہ بن گئے ہے یہ انکی بے دریغ قربانیوں، مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ہونا تھا۔ آج اگر بلوچ قوم کے فرزند اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے استاد تھے اسلم کے کاروان میں شریک ہو کر انکی راہ پر گامزن ہیں۔ تو یہ استاد کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ استاد اسلم بلوچ کی سوچ اور نظریہ بلوچ قوم میں ایک تناور درخت کے جڑوں کی طرح مضبوط ہو چکی ہے۔ آپ ایک درخت کے تنے اور شاخوں کو تو کاٹ سکتے ہو لیکن اس درخت کی جڑیں پھر سے ایک تناور درخت کی صورت میں پھر سے کھڑی ہو جائے گی۔

” غلامی میں راحت کی زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے کہ دشمن سے لڑتے ہوئے پر خار زندگی اپناہی جائے اور اپنی آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو محفوظ بنا کر اپنی جان نچھاور کی جائے “

‘بھگت سنگھ ‘ کے اس قول کو ہمارے لیے زندہ اور حقیقت میں بدل کر استاد اسلم بلوچ اور کاروان اسلم کے بلوچ فرزندوں نے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دے کر دکھا رہے ہیں۔ اتنی عظیم قربانیوں کے بعد آجوئی ہی بلوچ قوم کی منزل ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔