فکر و نظریہِ اسلم، بلوچ مزاحمتی جنگِ کی اصل بنیاد
تحریر: ڈاکٹر ھبیتان بشیر
دی بلوچستان پوسٹ
استاد اسلم کا کردار بلوچ جہدِ آزادی کی تحریک میں ایک ایسا کردار ہے کہ ایک قوم جو صحرا میں پیاس سے نڈھال ،تلاشِ پانی کے لئے ہزاروں کوشیشوں کے باوجو پھر بھی کوئی گمانِ اب نہیں ، آخر میں بس بے ہمتی و انتظارِ مرگ۔اسی لمحے صحرا میں سر چشمہ بنکر بہنا اور پیاسے قوم کو دوبارہ زندگی بخشنا اور اسے زندہ کرکے دوبارہ زندگی کے لئےہمت و حوصلہ دینا۔استاد اسلم کی حیثیت اس جہدِ آزادی کی تحریک کے لئے اسی سرچشمے کی ہے ،جس نے تحریک کو زندگی اور زندہ رہنے کی ہمت اور حوصلہ دیا۔
قربانی کے عظیم فلسفہ سے محدود اور منتشر سوچوں کو ایک نئی روشنائی عطا کئی۔ایک نئے چیدگ کا آغاز کیا اور معارِ قربانی کو اس قدر بلند کیا کہ جو اپنی سوچوں کی حدیں بس اپنے ذات تک محدود رکھیں ہوئی تھی انکو اپنے ہی ذات نے خود ایسے ہی نگل لیا کہ انکو پتہ تک نا چلی کہ انکو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی۔ اور اس مقدس اور عظیم مقصدِ جہد آزادی میں کوئی بھی وجود اپنی ذات سے بس ذات تک محدود ہو اور اپنی ذات کو اجتماعی فکر و عمل کے سپرد نہ کرئے اُسکا عاقبت اور انجام رسوائی کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا۔
نظریہ و عملِ اسلم نے سسکتی ہوئی تحریک کے اندر ایک ایسی زندہ روح ڈال دی کہ چھوٹی چھوٹی دریائیں ،ندیاں اور جوہڑیں جو قحط اور ویرانی کی وجہ سے خشک ہونے والے تھے اور قریبِ مرگ تھے انکو باراں بخشی کہ وہ پُر آب ہوکر ہر مشکل اور مصینت کو قبول کرکے جانب سمندر روان ہوئے اور انکا منزل اواریِ سمندر ہے۔
ریحان جان جب اپنے فدائی حملے کے بہت قریب ہوتے ہیں ،اسی وقت فدائی مشن میں موجود استاد کا ایک ساتھی دوستوں سے کہتے ہیں مجھے استاد سے ایک بار لازم ھال کرنا ہے ،وہ نیٹ ورک پہ جاکر استاد کو ھال کرتے ہیں کہ ہم اس مشن کو ریمورٹ سے بھی سر انجام دئے سکتے ہیں تم ریحان جان کو کیوں فدا ہونے کے لئے بھیج رہے ہو؟
استاد پہلے دوست سے کہتے ہیں کہ یہ باتیں ریحان جان کی ہیں یا خود تمہاری اپنی بے چینی؟ سنگت کہتے ہیں ریحان جان تو خود فولادی جذبوں اور آتشی ہمت سے بس اُسی لمحے کے لئے بے تاب ہیں۔
استاد کہتے ہیں پھر کون اس تاریخ کو بننے سے روک سکتا ہے ؟ جب وہ اپنی مرضی سے نہیں جانا چاہتا تو اس کی مرضی، لیکن جب وہ خود نہیں رکتا تو ایسے کوئی بھی رک نہیں سکتا۔ اور آخر میں دوست سے کہتے ہیں یہ جو تاریخ رقم ہونے والی ہے شاید تم میں کسی کو اسکا اندازہ نہ ہو، اصل کام بس دشمن پہ حملہ نہیں بلکہ وہ فلسفہِ قربانی ہے جو بکھیری ہوئی قوم کی ہمت اور طاقت کو سمیٹ کر یک جاہ کرتی ہے۔
اس پہ دوست کہتے ہیں جی استاد میں بس مشن کی باقی کاموںں کی تکمیل پہ لگ جاتا ہوں۔
تاریخ کے پنوں کو جھنجوڈ کر دیکھیں شاید ہی ایسا کوئی رھبر و رھشون ہو جو اس قدر ایسی عظیم جذبہ، پاک و مقدس نظریہ و عمل اور آتشی کمٹمنٹ اپنی قوم کی آزادی کے لئے رکھتا ہو۔ بلوچ خوش بخت قوم ہے کہ اس کو استاد اسلم جیسا رھبر اور رھشون نصیب ہوا ہے کہ جس نے اپنی وجود کے زرے زرے کو بلوچ قوم کی آزادی کے لئے ندر کیا۔بد بخت ہوگی وہ قوم جو اس مرد کے فلسفہ،نظریہ و عمل اور کمٹمنٹ کو بھول کر ذاتی زندگی اور ذاتییت میں غرق ہو۔بد بخت ہوگئی وہ قوم جو نظریہِ اسلم سے نا واقف ہوکر اپنے سوچوں اور عمل میں در بدر تھوکریں کھا رہا ہو۔بد بخت ہے وہ ساتھی جو استاد کے ساتھ رہ کر بھی اسکے فلسفے کے اصل اساس سے نا واقف ہے۔بد بخت ہے قوم کا وہ نوجوان جو فلاسفہِ اسلم سے ابھی بھی بے انجان ہوکر بے عمل ہے۔
نظریہِ اسلم ہماری پوری قوم کے لئے اپنی قومی آزادی کے لئے جد و جہد اور اسکو پانے کے لئے بس ہے،ہمیں کسی بھی نظریے اور دنیا کی باقی قوموں کی آزادی کو سمجھنے سے پہلے پہل ہم کو نظریہِ اسلم دیکھنا ،سمھنا اور اس پہ عمل کرنا ہے۔ شاید پھر ہم کو محسوس ہو کہ قومی آزادی کے لئے لڑنے اور اپنی ذات کو ایک اجتماعی بقاء کے لئے قربان کرنے کے لئے ہمارے لئے نظریہِ اسلم کافی ہے۔
اس نظریے کی تبلغ ہمیں بلوچ قوم کے گھر گھر تک کرنی ہے اور ہر بلوچ میں فکر و نظریہ اسلم پیوست کرنی ہے۔
فکر و نظریہ اسلم ہم کو ایسی بنیادیں فراہم کرگئی ہیں کہ ہم کو کسی بھی دلدل اور پیچ و تاب میں پھنسے بغیر مکمل ایمان و یقین کے ساتھ مکمل جدت و شدت کے ساتھ اس فکر نظریہ پہ عمل کرکے منزل کی جانب سمندری لہروں کی طرح آگئے بڑھنا ہے۔ استاد اسلم نے اپنے مثبت سوچ و جذبات کو واضح نظریات دئے کر اپنے کمٹمنٹ اور عمل سے ایک ایسی جنگ کی بنیاد رکھ دی ہے جسکو بنیاد بناکر ہم سو سال مکمل یقین و ایمان کے ساتھ مسلسل لڑ سکتے ہیں۔
1997 میں بی ایل اے کی بنیاد سے لیکر 2018 میں اپنی شہادت تک استاد اسلم اپنے اندر مکمل ایک فلسفہ فکر و نظریہ رکھتے ہیں۔
قابض اور نوآبادیت کے خلاف بلوچ قومی تحریک آزادی کی ایک طویل جد و جہد اور بلوچ قوم کی استعمار ،سامراج اور اپنے سماج میں موجود ظلم و نا انصافی کے خلاف ایک بڑی مزاحمتی روح ہے۔
بلوچ ایک قوم کی حثیت سے مخلتف سیاسی و مزاحمتی نشیب و فراز سے گزر کر اکیسویں صدی کے ابتدا میں ایک راکھ کی مانند اپنی بے سمائی میں اپنی روح کی آخری سانسوں تک پہنچ چکی تھی کہ یہیں سے ایک مزاحمتی اور سیاسی سوچ جنم لیتی ہے جو اس راکھ کو بجائے کے بے روح ہوکر فنا ہونے کے دوبارہ ان کے شعلوں کو پھونکنے لگتا ہے اور اسے دوبارہ جلانے کی جہد میں لگ جاتا ہے۔اس راکھ کو آگ میں بدلنے اور اس بے روح کو روح دینے کے لئے کہیں کردار سامنے آتے ہیں کہیں کردار ایسے ہیں جو اس راکھ کو آگ میں بدلنے کے لئے اپنی پوری وجود قربان کردیتے ہیں اور خود شعلے بنکر جلنے لگتے ہیں اور کہیں ایسے ہیں جو اپنی ذات میں بے روح ہوکر خود رکھ بنے ہوئے ہیں۔
انہیں کرداروں میں استاد اسلم جو اپنی مسلسل جد و جہد،ایمان کی حد تک اپنی آزادی پہ یقین اور اسی یقین و ایمان پہ اپنی پوری ہستی ندر کرکے راکھ کو آگ میں بدل دیتے ہیں۔اور اس آگ کا مشعل اور چراغ قوم کے ہاتھ تھم کر خود مانندِ سورج ہر صبح ہمارے وجود میں طلوع ہوتے ہیں۔
استاد اسلم پرواز کرتے ہوئے آسمان کی بلندئیوں تک پہنچ جاتے ہیں پھر اور بلندیوں تک یہ پرواز جاری رہتی ہے لیکن نیچے زمیں پہ کچھ بھی چھوڑکر نہیں جاتےنہ وہ لمہ یاسمین کے لئے کچھ رکھ دیتے ہیں،نا عائشی اور ھانی کے لیے کوئی دنیاوی اسودگی نہ زورین کے لئے کوئی قرض لالچ اور نہ اپنے دوستوں اور قوم کے لئے کوئی عالیشان خواب۔
استاد اسلم بس ایک پاک جذبہ،مقدس فکر و نظریہ ، عظیم عمل اور آتشی کمنٹمنٹ چھوڑ کر خود بلندئیوں تک پرواز کرتے ہیں۔اور ہمارے ہاتھ چراغ دئے کر ایک واضح چیدگ بن جاتے ہیں ۔اور اب یہ ہمارے ضمیر اور عمل پہ ہے کہ ہم بھی استاد اسلم کی پرواز میں خود کو شامل کریں گئے یا پست زمین کا چناو کرکے زمین کی پستی میں دفن ہوجائیں گئے۔
استاد اسلم بلوچ جہدِ آزادی کی تحریک میں شامل ہوکر آخری وقت اپنی شہادت تک بیس سال مسلسل روایت پرستی اور خیال پرستی کے خلاف مکمل آگاہی اور شعور کے ساتھ لڑتے رہے اور ہر لمحہ نئے جدت کے ساتھ جہد میں لمحہ بہ لمحہ تحریک کو تبدیلوں سے گزار کر ہر مشکل ھالت میں ثابت قدم رہ کر بلوچ جنگِ آزادی کی تحریک کو صیح سمت پہ لاکر باقاعدہ ایک واضح جنگ قوم کے ہاتھوں دئے چکے ہیں۔
فکر ، نظریہ اور عملِ اسلم کو لیکر خوابِ آجوئی کو حقیقت میں بدلنے کے لئے ہم کو مکمل اپنی ذات سے نکلنا ہے اور اپنی ذات کو فکر و عملِ اسلم کے مکمل سپرد کرنا ہے۔ یہ سپردگی بس لفاظی،اسٹیجوں میں آکر بس تقریروں ،سڑکوں پہ آکر کھوکلی نعروں، اپنی موجا موجی میں گم ہوکر بس حالت خمارِ میں انقلابی بنے ، اور جہد میں شامل ہوکر بھی ذاتی خواہشات،لذتوں،آرام و سکون کی تلاش اور جستجو سے نہیں بلکہ خود اپنی ہاتھوں سے اپنے جسم کے کال کو نچھوڑنے سے کرنا ہے۔ایسی سپردگی کہ جو آگ استاد اسلم جلا کر چلے ہیں اسی آگ میں شعلا بن کر جلنا ہے۔
مکمل مخلصی،محنت،لائقی، قربانی ،مسلسل جد و جہد، ڈسپلن ،صبر و برداشت اور ایمان و یقین کے ساتھ ہر کیفیت ،ہر ساھت،ہر لمحہ اور ہر روز آگئے بڑھنا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں