استاد اسلم بلوچ: چند یادیں، چند باتیں
ایڈوکیٹ گمشاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ سال 2009 کی بات ہے جب ایک روز میرے ساتھ بیٹھے پروفیسر نے اپنا موبائل فون مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ استاد اسلم آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں.۔ چونکہ استاد جان بسلسلہ مسافری کافی دنوں سے لائن پر موجود نہ تھے۔ اور یوں اچانک انکی آواز جب کانوں سے ٹکرائی تو گویامیں ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔ مختصر حال احوال کے بعد استاد اسلم نے اپنے بڑے فرزند ریحان جان کی ناساز طبیعت کا ذکر چھیڑا، جو بقول انکے کافی دنوں سے علیل ہیں۔ دورانِ گفتگو استاد جی کی آواز سےپریشانی عیاں تھی۔ حالانکہ استاد اسلم جیسے مضبوط اعصاب کے مالک انسان کو اس کیفیت میں کبھی نہیں پایا ۔ لیکن ریحان جان سے استاداسلم کی محبت بے پناہ تھی، حالانکه استاد جان گودی عائشه سمیت تمام بچوں سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے اور جب کبھی وہ ہماری طرف آتے تو بچے استاد اسلم کا ہاتھ تھامے شرارت کرتے تو استاد جان انکو پیار بھرے نظروں سے دیکھتے ہوئے انکے حرکات سے تسکین و راحت محسوس کرتے۔ چونکہ ہر پھول کی ایک اپنی مخصوص خوشبو ہوتی ہے، اسی طرح ریحان جان استاد اسلم کے گلشن کا وہ انمول پھول تھے جو استاد جی کے دل کے بے پناہ قریب تھے۔ ریحان سے استاد کی محبت لازوال محبت و قابل رشک تھی۔
ریحان کی اچانک ناساز طبیعت نے اس نڈر اور چٹان جیسے حوصلہ مند استاد اسلم کو بھی افسردہ کردیا تھا۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ دل کے نزدیک شخص کی تکلیف انسان کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ موبائل فون پر باتوں میں یہ فیصلہ ہوا کہ بغیر تاخیر کے ریحان جان کے علاج کو ممکن بنایا جائے ۔ پروفیسر نے فوراً چستی کا مظاہرہ کیا اور طے شدہ ہسپتال میں ریحان جان کے ہمراہ پہنچ گئے۔ میں اور چند دیگر دوست وہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔ گاڑی سے اترتے ہوئے ریحان جان پر جب نظر پڑی تو محسوس ہوا کہ وہ کافی لاغر و کمزور ہو چکے تھے۔ خراب صحت کے باوجود وہ ہماری جانب بڑھے اور ہمیشہ کی طرح اپنی معصومانہ مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ وہ ایک خاموش طبع. ہاں میں ہاں ملانے والا اور انتہائی فرمانبردار و باتمیز بچہ تھا۔ مختصر گپ شپ کے بعد ریحان جان اپنے دھیمے قدموں اور آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکوں کے ساتھ ہمارے ہمراہ معالج کے کمرے میں داخل ہوئے۔
معانے کے بعد ڈاکٹر نے چند ضروری ٹیسٹ تجویز کیے ۔رپورٹ آنے پر پتہ چلاکہ ریحان جان کے پیٹ کے دائیں جانب درقیہ غدود اچھے خاصے ساہز میں بڑھ چُکا ہےجس کے لیے سرجری ضروری ہے۔ پروفیسر اور باقی دوستوں سے مشورے کے بعد ریحان جان کو ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔رات کےآٹھ بجے ریحان جان کا آپریشن مکمل ہوا۔اگلی صبح جب ہسپتال کا عملہ ریحان جان کو چہل قدمی کروا رہا تھا تو اس دوران پروفیسر کا موباہل فون بجنے لگا۔ہمیں گمان تھا کہ فون پر استاد اسلم ہونگے جو درست ثابت ہوا۔پروفیسر سے مختصر حال احوال کے بعد فون میرے حوالے کیا گیا۔ دوران گفتگو، میں نے استاد جان کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا ۔استاد جان ریحان سے بات چیت کرتے ہوئے ان سے ہنسی مزاق کرتے رہے۔
بعد ازاں، ریحان جان نے اپنی لازوال قربانی سے سب کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ ایک نہ پُر ہونے والی خلا چھوڑ کر چلے گے، مگر انہوں نے بلوچ نوجوانوں کو قربانی کے فلسفے سے مکمل آشناء کرکے یہ پیغام دیا کہ جان کا نذرانہ دیے بغیر عظیم تر آزادی کا حصول ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بلوچ ورنا(نوجوان) جوق درجوق مجید برگیڈ کا حصہ بن کر دشمن کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں اور یہ یقیناً بذدل دشمن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ اسی طرح استار اسلم کے بعد آنے والی قیادت نے بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے دشمن کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اسکا بلوچ وطن پر مزید قبضہ برقرار نہیں رہ سکے گا۔ اس پہلو پر بلوچ قومی تحریک کے قائدین یقیناً دادکے مستحق ہیں۔ جب آپ اپنی سب سے عزیز شئے آنے والی نسل کی بقاء کے لئے قربان کررہے ہو، تو ہر ذی شعور حتیٰ کہ قدرت بھی آپ کے مقصد کے حصول کے لئے آپکا مدد گار بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر بلوچ مرد و زن کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بلوچ تحریک میں اپنا حصہ ڈانے میں مصروفِ عمل ہے۔
ریحان جان، استاد اسلم اور لمہ یاسمین کے وہ سپوت تھے جسے انہوں نے بڑے پیار سے پرورش کی۔ وہ یحان، جسکی معمولی تکلیف پر استار اسلم اور لمہ یاسمین بے چینی کی مورت بن جاتے تھے، اسی ریحان کو بلوچ کی آنے والی نسل کی بقاء کے لئے قومی بیرک میں اوڈھ کر قربان ہونے کے لیے روانہ کر دیتے ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا میں سب سے عزیز ہستی کو بھی پیغمبرانہ صفت کے مالک استاد اسلم اور لمہ یاسمین نے خاطر میں نہ لاتے ہوئے زمین اور قوم پر قربان کرکے محبت کی لازوال تاریخ رقم کردی۔ در اصل یہ وہی دور تھا جب بلوچ تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ آج اگر دشمن کے صفوں میں خوف و بے چینی پائی جاتی ہے اسکی وجہ صرف اور صرف استاد اسلم کا وسیع وژن ہے جنوں نے اپنے فرزند کو مجید برگیڈ کا میر کاروان بنایااور قربانیوں کی لازوال و نا ختم ہونے والے سلسلے کی بنیاد رکھی۔
گودی شاری بلوچ بھی استاد اسلم کے فدائی فلسفے کو اپنا کر ہمیشہ کیلئے امر ہو جاتی ہے۔ وہ عظمت و اعتزاز کو اپنے پلّو سے باندھ کر وطن پر قربان ہو جاتی ہے اور پہلی بلوچ فدائی خاتون کا اعزاز اپنے نام کرتی ہے۔ گودی شاری کی یہ عظیم قربانی اصل میں باقی شہدا کے فلسفہ سے وفاداری اور اسکی مکمل تاہید ہے جو ضرور بلوچ کو اسکے آزاد وطن کے حصول میں مدد گار ثابت ہوگی۔ گودی شاری جب اپنی خوشحال زندگی، ماھو اور میرو کی محبت اور حتیٰ کہ اپنی سانسوں کو بلوچ تحریک کے استحکام کے لئے قربان کر دیتی ہے، تو چائنہ کو یہ باور ہو جاتا ہے کہ پاکستان کو اسکے لوٹ ماری میں مدد کرنا اسکی بہت بڑی غلطی ہے۔ اب وہ دن آن پہنچا ہے کہ جب بلوچ قوم کا ہر جز اسے مار بھگانے میں اپنا کردار ادا کرنے میں مگن ہے۔ بلوچ شیر زالوں کی قربانیاں در اصل بلوچ تاریخ کا عظیم باب قلم بند کررہی ہیں۔
شہزادی گودی سمیعہ نے اس باب میں مزید اضافہ اُس وقت کیا دشمن فوج پر تربت میں حملہ آور ہو کر اُنہوں نے نہ صرف ظالم اور لٹیرے دشمن پر کاری ضرب لگائی، بلکہ اُنہوں نے ریحان جان کے فلسفہ کو عملی جامہ پہنا کر ریحان اور اسکے فلسفہ سے وفاداری کا ثبوت دی۔استاد اسلم کس قدر خوش ہونگے اپنے نشار(بہو) کی عظیم قربانی پر جنہوں نے استاد کے فدائی حملوں کے فلسفہ کو زندہ تا بندہ رکھا۔ ان ننھی کلیوں کی قربانیوں نے بزدل دشمن کے اوسان خطا کر دیے ہیں اور آج اسے ہربلوچ زالبول(عورت) فدائی بمبار نظر آتا ہے۔اور اس نے بلوچ وطن میں اپنے آخری دن گن لیے ہیں۔ آج ہر بلوچ فرزند اپنی قربانی سے یہ پیغام دے رہی ہے کہ جب تک بلوچ اپنی سرزمین کا وارث خود نہیں بن جاتا اور اپنی کھوئی ہوئی شناخت کو بحال نہیں کر لیتا، اس وقت تک بلوچ وطن کے سپوت دشمن سے مد بھیڑ کرتے رہیں گے اور اسے نیست و نابود کرنے کے لئے آخری حد تک جاہیں گے۔
اسی نظریہ کو اپنی سیاہ چادر تلے لپیٹے بی بی ماہل بلوچ نے 25 اگست کو دشمن کواسی کی زبان میں باور کروایا کہ تمھارا قبضہ خلاف قانون اور خلاف فطرت ہے اور یہ استاد اسلم، شارل سمیعہ، رازق٫ سلمان٫ شہزاد اور رحیانی کاروان ہے جسے روکنا پاکستان جیسے فاشسٹ اور اسکے نا جائز آقاؤں کے بس کی بات نہیں۔ اس لازوال نظریے کی آبیاری گودی ماہل نے اپنے خون سے کر کے ساتھیوں کے لیے راہیں مزید ہموار کردی ہیں۔ بلوچ زمین اور قومی بقاء کے لئے کئے گئے تمام حملےبشمول چائنیز سفارتخانہ حملہ، کراچی اسٹاک ایکسچینج ،نوشکی پنجگور فدائی حملے ، آپریشن درہ بولان٫ آپریشن زر پہازگ فیز اول تا چهارم، آپریشن ہیروف، ریلوے اسٹیشن کوئٹہ پر حملہ اور سال 2011 میں فدائی درویش کا حملہ، تمام کے تمام استاد اسلم کے عظیم وژن کی عکاسی کرتے ہیں جنوں نے مجید برگیڈکو فحال کرنے میں نہ صرف دن رات ایک کیے بلکہ اپنے فرزند کو اس دستے کا میر کاروان بنا کر قربانی، دلیری اور وفاداری کی عظیم مثال قائم کی۔
یہ استاد اسلم اور لمہ یاسمین کی قربانی کا صلہ ہے کہ آج بلوچ جوانوں کی اکثریت جوق در جوق مجید زرگیڈ کا حصہ بن کر اپنی جانوں سے بھی گزرنے کو تیار ہیں تاکہ بلوچ کا بچہ آنے والی وقتوں میں اپنی سرزمین پر آزاد فضاء میں سانس لے سکے۔ وہ ایک لاغر بدن ، ہنس مکھ اور فرمانبردار ریحان کو ایک نئے راستے پرگامزن کرتے ہیں۔ استاد اسلم اور لمہ یاسمین اپنے لختِ جگر کو بلوچ کے آنے والے صبح کے لئے قربان کردیتے ہیں۔ دنیاوی تاریخ میں اسکی مثال ملنا ناممکن ہے کہ والدین نے اپنے عزیز ترین اولاد کو قوم و وطن کی حرمت پر قربان کیا ہو۔
آج بھی وہ لمحات آنکھوں کے سامنے حسین خیال کی طرح آتی ہیں جب ریحان جان کے وہیل چیئر کو ہم دھکا دیتے ہوئے ہسپستال کے پارکنگ کی طرف لے کر آئے اور وہاں اسے الوداع کیا۔ کمزوری اور جسم پر ٹانکوں کے باوجود خدا حافظ کرتے ہوئےحسبِ عادت ریحان جان آگے بڑھے اور ہمارے ہاتھوں کو بوسہ دیا.
ریحان جان کا مسکراتا چہرہ اور آخری لمحات میں انکے ہاتھوں کی گرمائش آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ یوں عمر میں بہت ہی چھوٹے مگر نظریے میں انتہائی پختہ ریحان جان ہماری راہشونی(رہنمائی) کر گئے۔ ہمارا ایمان ہے کہ دشمن پاکستان مزید بلوچ قوم کو غلام نہیں رکھ سکے گی اور فکر و فلسفۂ ریحان در اصل ہماری نجاتِ غلامی کا واحد ذریعہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی ماننے والوں کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹ ورک متفقہ یا ان کے خیالات کے بارے میں پالیسیوں کا اظہار کرتے ہیں