ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی عوامی مقبولیت ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصالی پالیسیوں کا ردعمل ہیں۔ اسداللہ بلوچ

150

بی این پی عوامی کے مرکزی صدر، رکن بلوچستان اسمبلی اسداللہ بلوچ نے کہاہے کہ بلوچستان سے نیشنل ازم کی اسپرٹ ختم کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، نیشنل ازم کے بجائے عوام کا اعتماد پارلیمانی سیاست پر اٹھتا جا رہا ہے، بلوچستان کے موجودہ حالات اسٹیبلشمنٹ کی 76 سالہ ناکام اور منفی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی عوامی مقبولیت ظلم، جبر، ناانصافی اور استحصالی پالیسیوں کا ردعمل ہیں، ظلم و جبر کے خلاف یہ عوامی لاوا مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کرسکتی ہے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے پیر کی شام کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر تربت پریس کلب کے صدر حافظ صلاح الدین سلفی کی قیادت میں صحافیوں کے وفد سے خصوصی نشست کے دوران کیا۔

میر اسداللہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ قوم پرست پارٹیاں جب کمزور پڑجاتی ہیں تو وہ اتحاد ویکجہتی کی باتیں کرکے کہتے ہیں کہ بلوچ کمزور ہے آؤ ساتھ چلتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ اور بلوچستان کیلئے وہ کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیلئے تیار ہیں تاہم کسی کو لیڈر بنانے کیلئے میں اپنی طویل جدوجہد کی قربانی نہیں دے سکتا، بلوچ اور بلوچستان کے قومی مفادات ہمارے لئے مقدم ہیں بلوچ، بلوچ ثقافت، تشخص اور سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی لالچ، عہدے یا غرض کے بغیر ساتھ چلنے کو تیار ہوں لیکن ون پوائنٹ ایجنڈا بلوچ اور اس کی تاریخ کو زندہ رکھنا ہو۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایک بڑی سازش کے تحت بلوچ قومی جدوجہد اور قوم پرستی کی سیاست کو ڈھانے کی درپردہ پلاننگ کی جارہی ہے جس کے تحت ڈیتھ اسکواڈ اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی کی جارہی ہے، گوادر کی سیٹ جماعت اسلامی کو دی گئی اور آئندہ دور میں بلوچستان کی حکومت جماعت اسلامی کو دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس تمام پلاننگ کا مقصد بلوچستان سے قوم پرستی کی سیاست کے روح کو ختم کرنا ہے تاہم قوم پرستی کی سیاست بلوچ کی سرشت میں شامل ہے نیشنل ازم کی اسپرٹ ختم کرنے کا منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ اور بلوچستان کی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہا، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار اورکرسی کیلئے مصلحت پسندی کا شکار ہوکر اپنی وقعت کھو چکی ہیں، پارلیمانی سیاست خراب نہیں ہے مگر پارلیمان جاکر دلال اور ایجنٹ بننے کے بجائے اپنی قوم کا نمائندہ اور آواز بننے کی ضرورت ہے عوام سے ووٹ لینے والے عوام کے مفادات کے تحفظ اور عوام کے خلاف سازشوں کا دفاع کریں، بی این پی عوامی کا موقف کلیئر ہے، منافقت اور جھوٹ کی سیاست کے قائل نہیں، 65 کے ایوان میں سے 64 ارکان کے فنڈز جاری کردئیے گئے ہیں مگر صرف میرے فنڈز روکے گئے ہیں کہ آپ ہمارے مطابق بات نہیں کرتے، میں ہر مشکل صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہوں مگر اپنے ضمیر اور اپنے قوم کا سودا نہیں کرسکتا، وہ کام نہیں کرسکتا کہ کل میرا کوئی کارکن کسی محفل یا دیوان میں لوگوں کا سامنا نہ کرسکے۔

میر اسداللہ بلوچ نے کہاکہ بلوچ کا لیڈر میں، ڈاکٹر مالک یا اخترمینگل نہیں بلکہ بلوچ کا لیڈر وہ ہے جس کے ساتھ قوم ہے، آج جو سیاست ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کررہی ہیں اس فیز سے ہم گزرے ہیں اُس دور میں ہمارے لئے بھی عوامی سپورٹ اسی طرح تھی مگر پارلیمنٹ جاکر یہ عوامی اعتماد کمزور پڑتی گئی کیونکہ پارلیمنٹ جانے سے قبل پارلیمنٹ کو بطور مورچہ استعمال کرنے، پارلیمنٹ کے ذریعے قومی تحریک کو دنیا کے سامنے لانے اور پارلیمنٹ میں بلوچ قوم کے خلاف سازشوں کا راستہ روکنے کے مقاصد متعین کئے گئے تھے مگر پارلیمنٹ جاکر ہم خود استعمال ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ وہ 4 بار اسمبلی گئے ہیں مگر اس پورے دورانیہ میں ایک تقریر بھی اسلام آباد کی خوشنودی کیلئے نہ کیا، انہوں نے کہاکہ اخترمینگل کو اسمبلی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا کیونکہ وہ اسمبلی میں بولتا تھا اب اس کی جگہ پر جو جائے گا وہ کیا کرے گا۔