اسلام آباد کی ایک سول عدالت نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کے دوران درج کی گئی ایف آئی آر میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر 85 افراد کو بری کر دیا، یہ ایف آئی آر گزشتہ سال ترنول تھانہ اسلام آباد میں درج کی گئی تھی۔
اسلام آباد وفاقی پولیس نے لانگ مارچ کے شرکا کے خلاف ترنول اور کوہسار تھانے میں دو ایف آئی آرز درج کیئے گئے تھے۔
دسمبر 2023 میں درج کی گئی ان ایف آئی آرز میں مجموعی طور پر 282 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن میں سے 197 کو کوہسار تھانے کی ایف آئی آر میں شامل کیا گیا، جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت 85 افراد کو ترنول تھانے کی ایف آئی آر میں حکومت، ریاست، اور مسلح افواج کے خلاف نعرے بازی، سڑکیں بلاک کرنے، فسادات کرنے، اور عوامی زندگی کو متاثر کرنے کے الزامات میں نامزد کیا گیا۔
حال ہی میں جوڈیشل مجسٹریٹ (ویسٹ) نے BYC لانگ مارچ کے 85 شرکا، بشمول ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، کو بری کر دیا۔
عدالت کے حکم کے مطابق پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے الزامات کے حق میں ثبوت ناکافی تھے، اور شکایت کنندہ، جو ترنول تھانے میں تعینات ایک سب انسپکٹر تھا کی جانب سے صرف الزامات بیان کیے گئے تھے۔
عدالتی حکم کے مطابق پولیس کوئی آزاد نجی گواہ پیش کرنے میں ناکام رہی، حالانکہ واقعہ ایک عوامی جگہ پر پیش آیا تھا مزید یہ کہ پولیس نے کسی ویڈیو یا سی سی ٹی وی فوٹیج کا ثبوت بھی پیش نہیں کیا جو ملزمان کے خلاف الزامات کی تصدیق کر سکے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ان حالات میں، سیکشن 249-A کے تحت ملزمان کی درخواست قبول کی جاتی ہے، اور تمام ملزمان کو اس کیس سے بری کیا جاتا ہے ملزمان ضمانت پر ہیں ان کی ضمانتیں ختم کی جاتی ہیں کیس کی ملکیت، اگر کوئی ہو قانونی طریقے سے نمٹائی جائے گی۔
ملزمان کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے وکیل حبیب کریم بلوچ نے بتایا کہ کوہسار تھانے کی ایف آئی آر میں نامزد 197 افراد کو بھی جوڈیشل مجسٹریٹ شہزاد خان نے بری کردیا۔
واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لانگ مارچ گذشتہ سال 6 دسمبر 2023 کو بلوچستان کے شہر تربت سے شروع ہوا تھا یہ مارچ انسدادِ دہشت گردی ڈیپارٹمنٹ سی ٹی ڈی کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھا، جس میں ایک بلوچ نوجوان بالاچ بلوچ کو حراست میں قتل کیا گیا تھا لانگ مارچ کے شرکا 20 دسمبر 2023 کو اسلام آباد پہنچے۔
اس لانگ مارچ میں لاپتہ افراد کے خاندان، بشمول خواتین، بچے، اور بزرگ شامل تھے جب وہ اسلام آباد پہنچے تو چنگی نمبر 26 پر اسلام آباد پولیس نے مظاہرین پر واٹر کینن، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا، اور بڑی تعداد میں مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
بعد ازاں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ قائم کیا، جس کے دوران پولیس نے مزید طاقت کا استعمال کیا اور کوہسار تھانے میں مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے انھیں گرفتار کیا اور بعدازاں ان افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا جہاں وہ 23 جنوری 2024 تک کے احتجاجی کیمپ میں مظاہرے کرتے رہیں۔
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس احتجاجی دھرنے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنا احتجاج ختم کرتے ہوئے واپس بلوچستان آگئے۔