پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے نیشنل ڈیفنس کمپلیکس اور تین نجی کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد یہ معاملہ زیرِ بحث ہے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر امریکہ یہ پابندیاں عائد کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے جن میزائلوں پر خدشات ہیں وہ ایک عرصہ قبل مکمل کیے گئے تھے اور وہ تیار حالت میں موجود ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی نہیں رہی اور وہ اب خطے میں بھارت کے ساتھ تعاون بڑھا رہا ہے۔
امریکہ کی پابندیوں کی زد میں آنے والے اداروں میں پاکستان کے بیلسٹک پروگرام کا ذمہ دار قومی ادارہ نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) سرِفہرست ہے جب کہ ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اور راک سائیڈ انٹرپرائز شامل ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق مذکورہ کمپنوں پر پابندی کا فیصلہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہے۔
ترجمان امریکی محکمۂ خارجہ میتھیو ملر کے مطابق امریکہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور اس سے منسلک تشویش ناک سرگرمیوں کے خلاف اقدامات جاری رکھے گا۔
امریکی حکومت کی طرف سے یہ ایک اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کی مدت مکمل کر رہے ہیں اور ٹھیک ایک ماہ بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔
پاکستان پر امریکی پابندیاں کیوں؟
انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں پاکستان کے نیوکلئیر اینڈ آرمز کنٹرول سے متعلق کام کرنے والی ریسرچ فیلو غزالہ یاسمین جلیل کے مطابق پاکستان کے میزائل پروگرام سے منسلک کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ مختلف وجوہات ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ پاکستان کو اب اہم اتحادی نہیں سمجھتا اور خطے میں چین کے مقابلے کے لیے وہ بھارت کے ساتھ اشتراک بڑھا رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز امریکی فیصلے کو متعصبانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، پاکستان کا میزائل ٹیکنالوجی اور ڈیفنس سسٹم مقامی سطح پر تیار کردہ ہے اور وہ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے ‘آئی اے ای اے’ سمیت تمام ریگولیٹر اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے کبھی ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی کہ اس کے ایٹمی پروگرام میں کوئی لیکج ہوئی ہو۔ البتہ اس کے مقابلے میں بھارت کے حوالے سے مختلف شکایات سامنے آئی ہیں اور کچھ عرصہ قبل بھارتی میزائل بھی غلطی سے چل گیا تھا۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق امریکہ نے بھارت کو حال ہی میں مختلف ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے میں خطے کے ایک ملک کو اس طرح اجازت دینا اور دوسرے پر بغیر کسی وجہ کے پابندیاں عائد کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے نائب مشیر جون فائنر نے جمعرات کو واشنگٹن میں کارنیگی انڈاؤمنٹ فار پیس انسٹی ٹیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان دور تک ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کی ایسی صلاحیت حاصل کر رہا ہے جو آخر کار اسے اس قابل بنا دے گی کہ وہ جنوبی ایشیا سے باہر بشمول امریکہ کے اندر تک اہداف کو نشانہ بنا سکے گا۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کے میزائل پروگرام پر مسلسل خدشات پر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں سے نظر آرہا ہے کہ کوئی ناراضگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ بڑے ملکوں کے ساتھ کوئی لڑائی مول لے۔ لیکن پاکستان اپنے مفاد کے لیے اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ اس وقت جو لگ رہا ہے وہ یہی ہے کہ امریکہ کا پاکستان پر غصہ ہے لیکن اس کی وجوہات کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں کہ پاکستان کی نیوکلیئر سیفٹی یا سیکیورٹی اور پھیلاؤ کے حوالے سے کسی کو کوئی شکایت نہیں پاکستان کو توقع ہے کہ صدر جو بائیڈن کے جانے کے بعد نئی آنے والی امریکی حکومت ان پابندیوں کا جائزہ لے گی اور اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔
تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ کسی سرکاری کمپنی پر پابندی لگانا اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی عزائم نہیں لیکن امریکہ نہیں چاہتا کہ خطے میں پاکستان اس پروگرام میں مزید طاقت حاصل کرے اور لانگ رینج کے میزائل تیار کرے۔
پابندیوں سے کیا پاکستان کو کوئی فرق پڑے گا؟
تجزیہ کار غزالہ یاسمین کہتی ہیں امریکی پابندیوں کا پاکستان پر کچھ نہ کچھ اثر تو ہوگا۔ لیکن وہ میزائل جو بن چکے ہیں وہ ریورس نہیں ہوں گے۔ البتہ مستقبل میں کسی میزائل پروگرام کی اپ گریڈیشن کے کچھ مسائل ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسے مسائل سے ماضی میں نبٹتا رہا ہے۔ لہذا ان کے خیال میں امریکی پابندیوں سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
غزالہ یاسمین کے مطابق پاکستان نے کچھ عرصے سے مزید ٹیکنالوجی کے حصول میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جس کی بڑی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں جب کہ پاکستان یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے پاس موجود ٹیکنالوجی دفاعی ضروریات کے لیے کافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا میزائل پروگرام صرف اور صرف پڑوسی ملک بھارت کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا جاتا ہے اس سے کسی اور ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ پاکستان پر پہلی مرتبہ پابندیاں نہیں لگیں ماضی میں بھی لگتی رہی ہیں۔ پاکستان اس طرح کی پابندیوں کے بعد خودانحصاری کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔
البتہ تجزیہ کار قمر چیمہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لے اور امریکہ کی طرف سے کی جانے والی “ناانصافی” کے حوالے سے آگاہ کرے۔
قمر چیمہ کے مطابق پاکستان کو امریکی پابندیوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ پاکستان کے زیادہ تر میزائل مکمل ہیں اور ان کے لیے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان کے میزائلوں کی صلاحیت
پاکستان کے میزائلوں کی صلاحیت کے بارے میں سوال پر آئی ایس ایس آئی کی ریسرچ فیلو غزالہ یاسمین کہتی ہیں پاکستان کا سب سے زیادہ رینج والا میزائل شاہین ہے جو 2750 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس درمیانی اور کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بھی ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے پاس کے ایم آئی آر وی ابابیل، اور کروز میزائل بھی ہیں، جو زمین اور سمندر سے بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
غزالہ یاسمین کا کہنا تھا کہ شاہین میزائل پر اعتراض کیا جا رہا ہے لیکن یہ تو کئی سال پہلے کا بنا ہوا میزائل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امریکہ پر حملے کے لیے میزائل نہیں بنا رہا۔ یہ میزائل پروگرام طویل مدت سے چلا آ رہا ہے اس پر اچانک اعتراضات کیوں آرہے ہیں۔
غزالہ یاسمین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بھارت کے اثر و رسوخ پر ہی امریکہ سمیت مختلف ادارے پاکستان پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
پاکستان کا انحصار اب چین پر ہوگا؟
امریکہ کے بجائے کسی اور ملک پر انحصار سے متعلق سوال پر جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ امریکی ٹیکنالوجی بہت شاندار ہوتی ہے لیکن اب صرف ایک ملک کی ٹیکنالوجی پر ہی انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اپنی ضرورت کے لیے کسی اور ملک سے بھی رجوع کرسکتا ہے۔
تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکنالوجی بہت بہتر ہو چکی ہے اور پاکستان امریکی پابندیوں کو غلط فہمی پر مبنی سفارتی فیصلہ سمجھتا ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کو بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ پاکستان کے پاس موجود یہ تمام پروگرام پاکستان کے انجنئیرز اور سائنسدانوں کی محنت کا ثمر ہے۔
پاکستان کے میزائل پروگرام سے وابستہ کمپنیوں پر پابندیوں کا امریکہ کا فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں برس اکتوبر میں امریکی محکمۂ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی (بی آئی ایس) نے مبینہ طور پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔
اس سے قبل ستمبر میں چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور متعدد کمپنیوں پر پاکستان کے جوہری میزائل پروگرام کو مواد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
اس وقت جو کمپنیاں امریکی پابندیوں کی زد میں آئی تھیں ان میں چینی کمپنی ہوبے ہواچینگڈا انٹیلی جینٹ اکیوپمنٹ، یونیورسل انٹرپرائزز اور شیان لونگڈے ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان میں قائم انوویٹو اکیو پمنٹ شامل تھیں۔
امریکہ کی طرف سے اکتوبر 2023 میں بھی تین چینی کمپنیوں پر پاکستان کے پروگرام کو مواد بیچنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
نیشنل ڈیفنس کمپلیکس کیا ہے؟
پاکستان کا نیشنل ڈیفنس کمپلیکس ملک کے معروف دفاعی اور خلائی اداروں میں سے ایک ہے۔ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری پاکستان کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانا اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ہے۔
راولپنڈی کے قریب قائم یہ ادارہ 1990ء میں پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے چیئرمین منیر احمد خان کی زیرِ نگرانی قائم کیا گیا تھا۔ اس کا قیام پاکستان کی دفاعی صنعت کو خود کفیل بنانا اور ملک کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنا تھا۔
نیشنل ڈیفنس کمپلیکس نے مختلف میزائل سسٹمز بنانے میں تیزی سے ترقی کی ہے جن میں شاہین-1، شاہین-2، بابر، اور غوری-3 میزائل شامل ہیں۔
پاکستان کے میزائل پروگرام کے ساتھ ساتھ این ڈی سی نے خلائی سیٹلائٹس اور ملٹی میڈیا پر بھی کام کیا ہے جو پاکستان کی خلائی تحقیق میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
این ڈی سی مختلف دفاعی آلات میں بہتری لایا ہے جن میں توپیں اور انفنٹری کا ساز و سامان بھی شامل ہے۔
بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس ریسرچ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ شاہین سیریز کے میزائل جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ بابر میزائل پاکستان کا پہلا لینڈ اٹیک کروز میزائل ہے جو 750 کلومیٹر کی حد تک ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔